21 دسمبر ، 2019
بھارت میں متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاج جاری ہے جب کہ پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال اور فائرنگ سے ہلاک افراد کی تعداد 21 ہوچکی ہے۔
بھارتی میڈیا رپوٹس کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں ریاست اترپردیش(یوپی) میں ہوئی ہیں جہاں ہلاک افراد کی تعداد 15 ہوچکی ہے۔
اترپردیش میں صورتحال کشیدہ ہے جس کے باعث متعدد اسکول اورکالج بند کردیئے گئے،جب کہ بیشتر حساس اضلاع میں انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔
یوپی کے مختلف شہروں میں متنازع بل کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس کی جانب سے مظاہرین پر طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا، ریاست کے مختلف شہروں میرٹھ بجنور ،ورانسی، فیروز آباد،کانپور اور سنبھل میں مظاہرین کو بھارتی پولیس نے گولیاں مار کر ہلاک کیا جب کہ اس دوران متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔
یوپی پولیس کے ترجمان کے مطابق ریاست میں 10 دسمبر کے بعد سے ہونے والے مظاہروں میں اب تک 15 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں ایک 8 سال کا بچہ بھی شامل ہے جو کہ گذشتہ روز ایک ریلی کے دوران بھگڈر مچنے کے نتیجے میں جان کی بازی ہار گیا۔
پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے دوران 4 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس وقت705 افراد زیر حراست ہیں جب کہ مظاہرین سے جھڑپوں میں 263 پولیس اہلکار بھی زخمی ہیں۔
بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شریک ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
اس کے علاوہ ریاست آسام کے علاوہ کولکتہ ،چنئی،لکھنئو اور ممبئی سمیت مختلف شہروں میں بڑی تعداد میں مظاہرے کیے گئے جب کہ ریاست کرناٹکا کے شہر مینگلورمیں اتوار تک کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
دوسری جانب بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے کرناٹکا کے ہندو انتہا پسند وزیر سیاحت سی ٹی روی نے بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی بھی دیدی ہے۔
متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا تھا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دیدی تھی۔
بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔
ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جا چکا ہے۔
متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔