22 دسمبر ، 2019
پہلی بات تو یہ کہ ’’مقدس‘‘ صرف آسمانی صحیفے ہوتے ہیں، انسانی نہیں، رہ گئے انسانوں کے لکھے ’’آئین‘‘ تو یہ محترم ہو سکتے ہیں، مقدس نہیں کیونکہ ’’مقدس‘‘ ترامیم سے ماورا کا نام ہے۔
آئین محترم ہے تو پھرسارے کاسارا محترم ہے، یہ نہیں کہ ’’میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو‘‘....خاص طور پر جب بات بنیادی حقوق (FUNDAMENTAL RIGHTS)کی ہو کہ آئین بنیادی طور پر انسانوں اور ان کے حقوق کی ضمانت ہوتے ہیں۔
آرٹیکل 6سنگین غداری (HIGH TREASON) سر آنکھوں پر حالانکہ انسان کبھی کبھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ سچ مچ کی ’’اشرف المخلوقات‘‘ کی حکومت کے تحفظ کی ضمانت تو نہیں ؟ مخصوص محدود طبقہ کی حفاظتی فصیل تو نہیں؟ کیونکہ ہم جیسے معاشروں میں ووٹ لئے نہیں چھینے جاتے ہیں اور چھیننے کے طریقے بے شمار۔
’’ڈبل شاہ‘‘ بھی ڈاکو کی طرح چھینتا نہیں تھا، لوگ خوشی خوشی عمر بھر کی جمع پونجی ’’اپنی مرضی‘‘ سے اس کے بیلٹ بوکس ...معاف کیجئے ’’بٹوے‘‘ میں ڈال دیتے تھے لیکن شاید ہر منطق بے معنی ہے لیکن اپنے محبوب آرٹیکل 6کے بعد جب میں آرٹیکل 8 پڑھتا ہوں تو کنفیوژ ہو جاتا ہوں کیونکہ یہ کہتا ہے ...’’بنیادی حقوق کے نقیض یا منافی قوانین کالعدم ہوں گے‘‘بنیادی حقوق کیا ہیں؟ کتنے فیصد کو حاصل ہیں؟ اور جو ان حقوق کے حصول کو عوام کیلئے یقینی بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہے ان کے اصل مقام /سزا کا تعین کون کرے گا؟
آئین سے غداری اور عوام سے غداری میں کوئی فرق ہے یا نہیں ؟اور اس کا تعین کون کرے گا؟آرٹیکل 9 فرد کی سلامتی (SECURITY OF PERSON)’’کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے۔
’’زندگی‘‘ اور ’’آزادی‘‘ کی تعریف(DEFINTION)کیا ہے ؟کیا ’’خط غربت‘‘ پر زندہ لوگ بھی زندہ ہیں ؟اور کیا بیروزگار، بھوکا، بے علاج، بے امان رہنے کی ’’آزادی‘‘ بھی آزادی ہے ؟’’آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت حکومت کو چاہئے کہ وہ بنیادی حقوق کی حفاظت کیلئے اقدامات کرے ‘‘سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف اقدامات کیوں کرے؟انہیں یقینی کیوں نہ بنائے اور اگر نہ بنا سکے تو ’’سنگین غداری‘‘کی طرح اسے ’’سنگین بیوفائی‘‘ ...’’سنگین غفلت‘‘ قرار دے کر کوئی سزا کیوں نہ دی جائے ؟
چاہے یہ سزا پھانسی یا عمرقید سے کم ہی کیوں نہ ہو ، لیکن یہاں ہینڈز اپ، یہ کام ’’عوام کی عدالت ‘‘ انتخابات میں کرے گی جہاں کبھی ’’بحیلۂ مذہب کبھی بنام وطن‘‘ ووٹوں کا جمہوری اور قانونی کاروبار ہوتا ہے۔
’’بجلی کی فراہمی بنیادی حق زندگی کی سہولیات کے تحت آئین کے آرٹیکل 9 میں مجوزہے‘‘ اور ’’لفظ‘‘ زندگی ’’جو کہ آئین کے آرٹیکل 9 میں استعمال ہوا ہے کے معنی محدود نہیں ہیں بلکہ اس میں انسانی زندگی کا ہر ایک پہلو شامل ہے ‘‘(2014 SCMR 396)’’آرٹیکل 11(3)‘‘چودہ سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کسی کارخانے یا کان یا دیگر پرخطر ملازمت میں نہیں رکھا جائے گا‘‘ البتہ بھیک مانگنے، اینٹوں کے بھٹوں، چائے کے کھوکھوں، پان شاپس پر کام اور کاروں کی صفائی وغیرہ وغیرہ وغیرہ کی مکمل ’’آزادی‘‘ ہو گی اور یہ ’’آزادی‘‘ چودہ اگست 1947ء والی آزادی سے کسی طرح کم نہیں ہوگی۔
اوپر کہیں بجلی کی فراہمی کو بنیادی حق زندگی قرار دیا گیا (آرٹیکل 9) تو یہ ایسے ہی ہے جیسے لینڈ کروزر، مرسڈیز خریدنے کا ’’حق زندگی‘‘ حالانکہ اگر یہ ’’بنیادی حق ‘‘ ہے تو کیا اسے ہر شہری کی رینج میں نہیں ہونا چاہئے ؟قابل حصول نہیں ہونا چاہئے بصورت دیگر.........آرٹیکل 14’’شرف انسانی قابل حرمت ہو گا‘‘ہے؟اور اگر ہے تو کن کیلئے ہے ؟آرٹیکل 38’’عوام کی معاشرتی اور معاشی فلاح وبہبود کا فروغ ‘‘مملکت’’(الف ) عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرکے دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفاد عامہ کو نقصان پہنچے اور آجر و ماجور، زمیندار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دیکر بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل عوام کی فلاح وبہبود کے حصول کی کوشش کرے گی‘‘صرف کوشش کرے گی؟
اور اگر اس ’’کوشش‘‘ میں مسلسل ناکام رہے گی تو ؟فیصلہ پھر ’’عوام کی عدالت ‘‘کرے گی...عوام جن کے پلے ہی کچھ نہیں مخصوص طبقوں میں دولت اور طاقت کا ارتکاز روزِ اول سے عروج پر ہے ۔مملکت’’ان تمام شہریوں کیلئے جو کمزوری، بیماری یا بیروزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل بنیادی ضرورت زندگی مثلاً خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی‘‘ .....
کبھی کیا ؟’’پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت افراد کی آمدنی اور کمائی میں عدم مساوات کو کم کرے گی‘‘ربا کو جتنی جلد ممکن ہو ختم کرے گی۔
‘‘آرٹیکل 32، بلدیاتی اداروں کا فروغ’’مملکت متعلقہ علاقوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل بلدیاتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ایسے اداروں میں کسانوں، مزدوروں اور عورتوں کو خصوصی نمائندگی دی جائے گی قارئین !پہلی بار پوری سنجیدگی سے آئین کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جو ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا اور لاء آف کامن سینس کہتا ہے کہ اس پر عملدرآمد ادھورا نہیں، پورا ہو گا یا نہیں ہو گا اور مداخلت صرف کارکردگی کی ڈھال پر روکی جاسکتی ہے ۔یار زندہ صحبت باقی’’آئین شکنیوں ‘‘کی گنتی جاری رہے گی۔