03 جنوری ، 2020
عراق میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے امریکی حملے میں قتل کے بعد خطے میں کشیدگی کی صورتحال ہے اور واقعے کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک کے علاوہ خود امریکا میں بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔
عراقی دارالحکومت بغداد پہنچنے پر جنرل سلیمانی کا عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی ال مہندیس نے استقبال کیا، دونوں ایک گاڑی میں سوار ہوئے، ائیرپورٹ کے قریب قافلے پر چار راکٹ مارے گئے جس میں 9 افراد جاں بحق ہوئے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق امریکا نے بغداد ائیرپورٹ کے کارگوٹرمینل کے قریب سڑک پر 2 گاڑیوں کو راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا جس میں ایک ایرانی کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی گاڑی تھی۔
قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایرانی صدرحسن روحانی نے کہا ہے کہ ایران اور خطےکی آزاد قومیں جنرل قاسم سلیمانی کےقتل کابدلہ لیں گی۔
اپنے ایک بیان میں حسن روحانی کا کہنا تھا کہ قاسم سلیمانی کا قتل امریکی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے جذبےکوبڑھائےگا۔
پاکستان نے عراق میں امریکی حملے میں ایرانی فوج کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کے جاں بحق ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال خطے کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ خودمختاری کا احترام اور علاقائی سالمیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصول ہیں اور اقوام متحدہ چارٹر کے مطابق ان اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔
نگران عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے جارحیت قرار دیا ہے۔
اپنے بیان میں عادل عبدالمہدی کا کہنا ہے کہ ایک عراقی عسکری کمانڈر ابومہدی المہندس جو کہ ایک سرکاری عہدے پر بھی تھے،کو قتل کرنا عراق پر حملہ کرنا ہے ۔
ان کا کہنا تھا ایک برادر ملک کی اہم شخصیت کو عراق میں قتل کرنا ہماری سالمیت کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
عراقی وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ یہ حملہ عراق کو ایک تباہ کن جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
عراق کے سابق ملیشیا لیڈر اور سیاستدان مقتدیٰ الصدر نے اپنی مہدی آرمی دوبارہ فعال کرنےکااعلان کرتے ہوئے اپنے جنگجوؤں کو تیا رہنے کاحکم دے دیا ہے۔
عراق کے اہم مذہبی رہنما آیت اللہ علی سیستانی نےواقعے کے بعد تمام فریقین سے تحمل کے مظاہرے کا مطالبہ کیا ہے۔
آیت اللہ علی سیستانی کا کہنا ہے کہ یہ حملہ عراق کی سالمیت کی خلاف ورزی ہے اور اس حملے میں داعش کو شکست دینے والے کئی کمانڈر ہلاک ہوئے ہیں، تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ برداشت اور سمجھداری سے کام لیں۔
لبنانی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے اپنے بیان میں کہا ہےکہ امریکا کو اِس جرم کی سزا دینا دنیا بھرکے مزاحمت کاروں کی ذمہ داری ہے۔
حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ امریکا کی اس حرکت کی وجہ سے جنرل قاسم سلیمانی کے مقاصد اور عزائم کو پورا کیا جائے گا۔
شام نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کو امریکا کا بزدلانہ اقدام قرار دیا ہے۔
شامی صدر بشارالاسد کا کہنا ہے کہ شامی عوام شام میں دہشت گردوں اور اور ان کے معاونین کو شکست دینے میں مدد کرنے پر جنرل قاسم سلیمانی کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
بشارالاسد کا کہنا ہے کہ امریکی حملے سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ امریکا دہشت گردی کو فروغ دے کر خطے اور دنیا کے امن کو نقصان پہنچانے کے صیہونی ایجنڈے کو پورا کرنا چاہتا ہے۔
علاوہ ازیں فلسطینی تنظیم حماس کے ترجمان نے جاری بیان میں کہا ہے کہ امریکا نےخطے میں امن واستحکام کےسوا امکانات کے تمام کے دروازےکھول دیے ہیں۔
چین نے متعلقہ فریقین بالخصوص امریکا سے کشیدگی سے بچنے کے لیے تحمل کا مظاہرہ کرنےکی اپیل کی ہے۔
چین نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق عالمی قوانین پر عمل کریں اور عراق کی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے خطے میں امن واستحکام کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ کا کہنا ہے کہ چین بین الاقوامی معاملات میں ہمیشہ سے طاقت کے استعمال کے خلاف رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کو جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال پر تشویش ہے۔
روس نے ایرانی کمانڈر کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی جنرل کی ہلاکت سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی کا قتل مہم جویانہ حرکت ہے جس سے پورے خطے کی سلامتی کو خطرات کا سامنا ہے۔
روسی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ جنرل قاسم کی ایران کے قومی مفاد کے لیے اہم خدمات ہیں ،اس لیے ہم ایرانی عوام سے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔
ترکی کی جانب سے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے خطے کے عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔
ترکی کی وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عراق کو تنازعے کا شکار بنانے سے عراق اور خطے کے امن کو سخت نقصان پہنچے گا۔
برطانوی وزیرخارجہ ڈومینک راب نے واقعے کے بعد کشیدگی میں کمی لانے پر زور دیا ہے۔
ایک بیان میں ڈومینک راب کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے جنرل قاسم کی جانب سے خطرات تسلیم کیا تھا تاہم اس حوالے سے مزید تنازع ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔
فرانس کی وزیر برائے یورپ ایمیلی ڈی موں چلاں کا کہنا ہے کہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد دنیا مزید خطرناک ہوچکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امن و امان کے حوالے سے سب کو مل کر اقدامات کرنے چاہئیں اور کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئیں۔
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے واقعے کے بعد کسی بھی قسم کی محاذ آرائی سے بچنے کے لیے حکمت سے کام لینے پر زور دیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید النہیان کا کہنا ہے کہ خطے کے معاملات پر دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسائل کے سیاسی حل کی کوشش کی جانی چاہیئے۔
سعودی عرب نے بھی قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد فریقین کو تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے۔
سعودی عرب کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ عراق میں ہونے والے سابقہ 'دہشت گردی' کے واقعے کا ردعمل ہے جس کے اثرات پر مملکت کی جانب سے خبردار بھی کیا گیا تھا۔
قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ردعمل کے خطرے کے باعث اسرائیل میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کردیا گیا ہے جب کہ اسرائیل نے شام اور لبنان کے ساتھ سرحد پر سیکیورٹی میں اضافہ کردیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو یونان میں تعطیلات ختم کر کے اسرائیل واپس آگئے ہیں۔
نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کا قاسم سلیمانی پر حملے کا حکم بالکل ٹھیک قدم ہے،امریکا نے اپنے دفاع میں قاسم سلیمانی پر حملہ کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایرانی فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے ہزاروں امریکیوں کو قتل اور زخمی کیا اور آئندہ مزید فوجیوں کے قتل کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل قاسم سلیمانی کی راکٹ حملے میں ہلاکت کے فوری بعد ٹوئٹر پر امریکی پرچم پوسٹ کیا تھا، اب ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
امریکی صدر کا اپنی ٹوئٹ میں کہنا ہے کہ قاسم سلیمانی نے متعدد امریکیوں کو قتل اور زخمی کیا اور آئندہ مزید کے قتل کی منصوبہ بندی کررہے تھے لیکن بالآخر گرفت میں آگئے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریز نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد خطے کی صورتحال کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انتونیو گوتیریز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس وقت ضرورت ہے کہ تمام رہنما زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں ،دنیا خلیجی ممالک میں ایک اور جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
دوسری جانب عراق میں امریکی سفارتخانے نے امریکی شہریوں کو فوری طور پر عراق چھوڑنے کی ہدایت جاری کردی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں عراق میں موجود امریکی شہریوں کو حفاظتی اقدام کے طور پر عراق سے نکل جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ بغداد میں سفارتخانے پر حملے کے بعد عراق میں موجود تمام قونصل خانے بند کردیے گئے ہیں اس لیے امریکی شہری سفارتخانے آنے کی کوشش مت کریں۔
دوسری جانب عراقی حکام کا کہنا ہے کہ جنوبی عراق میں موجود آئل فیلڈز میں کام کرنے والے امریکی شہری عراق چھوڑ کر جارہے ہیں تاہم اس سے تیل کی پیداوار اور برآمدات پر فرق نہیں پڑے گا۔
امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے واقعے سے خطے میں کشیدگی خطرناک حد تک بڑھنے کا خدشہ ہے ظاہر کرتے ہوئےکہا ہے کہ امریکا اور دنیا ایسی کشیدگی کوبرداشت نہیں کرسکتے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔
امریکی سینیٹر کرس مرفی نے کہا ہے کہ سوال یہ ہےکہ امریکا کیسے کانگریس کی منظوری کے بغیرایران کے دوسرے طاقتور شخص کو قتل کرسکتا ہے؟ جب کہ وہ جانتا ہے کہ اس سے ممکنہ طور پر وسیع پیمانے پر علاقائی جنگ کاخطرہ ہے۔
امریکہ کے سابق نائب صدر جو بائڈن نے ایک بیان میں کہا کہ ’صدر ٹرمپ نے بارود کے ڈھیر کو ماچس کی تیلی دکھا دی ہے۔ ایران اس کا جواب دے گا۔ ہم مشرق وسطیٰ میں ایک اور بڑے تنازعے کے دہانے پر ہیں۔