03 جنوری ، 2020
ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی عراق میں امریکی راکٹ حملے میں جاں بحق ہوگئے۔
عراقی دارالحکومت بغداد پہنچنے پر جنرل سلیمانی کا عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی ال مہندیس نے استقبال کیا، دونوں ایک گاڑی میں سوار ہوئے، ائیرپورٹ کے قریب قافلے پر چار راکٹ مارے گئے جس میں 9 افراد جاں بحق ہوئے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق امریکا نے بغداد ائیرپورٹ کے کارگوٹرمینل کے قریب سڑک پر 2 گاڑیوں کو راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا جس میں ایک ایرانی کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی گاڑی تھی۔
حملے کے نتیجے میں میجر جنرل قاسم سلیمانی جاں بحق ہوگئے جس کی تصدیق امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے کردی گئی ہے۔
جنرل سلیمانی پر حملےکی تصدیق ہوتے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی پرچم ٹوئٹ کیا۔
ادھر حملے کے نتیجے میں عراق کی پاپولر موبائلائزیشن فورس نے اپنے 7 افراد جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے۔
عراق کی پاپولرموبائلائزیشن فورس نے اعتراف کیا کہ امریکا اور اسرائیل ابومہدی المہندس اور قاسم سلیمانی پر حملے میں ملوث ہیں۔
واقعے کے بعد اسرائیل نے شام اور لبنان سے ملحق اپنی سرحد پر سیکیورٹی بڑھادی۔ امریکا نے اپنے شہریوں کو عراق سے فوری نکلنے کا حکم دے دیا جس کے بعد عراقی آئل فیلڈز سے غیرملکیوں کا ہنگامی انخلاء شروع ہوگیا۔
ایران نے کہا ہے کہ امریکا سے جنرل سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیا جائے گا۔
ادھر عراق میں مقتدیٰ الصدر نے عراقی ملیشیا ’مہدی آرمی‘ کو فعال کردیا، عبوری عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کو امریکی حملے سے عراق، خطے اور پوری دنیا میں جنگ چھڑنے کا خدشہ لاحق ہوگیا جس کے بعد عراق سے ملحق سرحد پر ایرانی لڑاکا طیاروں کی پروازیں جاری ہیں۔
خیال رہے کہ 30 دسمبر 2019 کو امریکی فورسز نے مغربی عراق میں ایران نواز ملیشیا کتائب حزب اللہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملہ کیا تھا جس میں 24 ارکان ہلاک ہوگئے تھے۔
امریکا کا کہنا تھا کہ یہ حملہ عراقی ملیشیا کی جانب سے کرکوک کی ائیر بیس پر راکٹ حملے کے جواب میں کیا گیا جس میں ایک امریکی کنٹریکٹر ہلاک اور متعدد امریکی اور عراقی اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔
کتائب حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملوں کے ردعمل میں سیکڑوں کی تعداد میں مظاہرین نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کی تھی اور سفارت خانے کے بیرونی حصے کو آگ لگا دی تھی۔
امریکا نے سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا تھا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران کو امریکی سفارت خانے پر حملے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
واضح رہے کہ اس واقعے کے علاوہ بھی امریکا اور ایران کے درمیان طویل عرصے سے کشیدگی ہے جس کی بنیادی وجہ ایران کا جوہری پروگرام ہے۔
امریکا کا مؤقف ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اس کے اور اسرائیل سمیت دیگر اتحادیوں کے لیے خطرہ ہے جبکہ ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کیلئے ہے۔