04 جنوری ، 2020
پنڈی کے شیخو بابا ویسے تو وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے میں پہلے ہی بہت مہارت رکھتے تھے مگر اب اُن کے کھیل میں نکھار آگیا ہے۔ اگر سنگل وکٹ ورلڈ کپ ہو تو یقیناً شیخو بابا گراؤنڈ کے چاروں طرف چوکے چھکے لگاتے پائے جائیں گے۔
شیخو بابا 11رکنی ٹیم کے ایسے کھلاڑی ہیں کہ اُنہیں جس نمبر پر بھی کھلایا جائے میدان میں خوب رنگ جمائیں اور مخالفین کو تگنی کا ناچ نچائیں۔ دنیا ایسے کھلاڑی کو ’’انوکھے نام‘‘ سے جانتی پہچانتی ہے۔ ٹُل لگ گیا تو پاؤں بارہ نہ لگا تو نصیب تمہارا۔ اب شیخوبابا تھوڑا تھوڑا وکٹ سے باہر نکل کر بھی شارٹ کھیلنے لگے ہیں۔
لگتا یہی ہے کہ وہ بھی شہباز شریف کی مریدی میں چلے گئے ہیں۔ شیخو بابا پہلے تو شہباز شریف کو اپنی ٹیم کا حصہ قرار دیتے تھے اب اُنہی کے ہاتھوں بیعت ہوئے جاتے ہیں۔
شیخو بابا کی تازہ ترین شارٹ تو دیکھئے، فرماتے ہیں ’’کاش اپوزیشن ابو بچاؤ مہم کے بجائے مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکلتی، غریب کی آواز بنتی تو میں بھی اُن کے ساتھ سڑکوں پر احتجاج کررہا ہوتا‘‘۔
بڑے خان تو کہتے ہیں کہ میں احتساب خان کو کئی بار کہہ چکا ہوں کہ مہنگائی کنٹرول کرو، غریب مر رہا ہے مگر احتساب خان سنتا ہی نہیں۔ وہ کہتا ہے معیشت ٹھیک ہوگی، سب کا احتساب ہوگا، نظام چلے گا تو غربت بھی ختم ہو جائے گی۔ احتساب خان کی صرف ایک ہی دلیل ہے کہ میں نے تو پہلے ہی دن کہہ دیا تھا گھبرانا نہیں۔
ویسے تو شیخو بابا اپنے آپ کو بڑا سیاسی سنیاسی باوا قرار دیتے ہیں۔ انہونی کو ہونی اور ہونی کو انہونی کہتے ہیں، مستقبل کے بڑے بڑے سیاسی اور احتسابی فیصلوں کی اونی پونی پیش گوئیاں کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہاتھوں ہاتھ میڈیا پر چھائے رہتے ہیں۔ نبض شناس حکیم کی طرح عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اسی نسخے پر عمل کرتے ہوئے اپنی سیاسی دکان بھی چمکائے پھرتے ہیں یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔
شیخوبابا! احتساب خان کو سمجھایے کہ جو میڈیا کے پیچھے پڑے ہیں۔ کوئی تو احتساب خان کو بتائے کہ میڈیا وہی چھاپ رہا ہے جو حق سچ ہے جو آپ کررہے ہیں۔احتساب خان جب کہیں گے کہ مزاحمت کے باوجود اصلاحات سے پیچھے نہیں ہٹوں گا اور اسی دن نیب ترمیمی آرڈیننس ایوانِ صدر کی فیکٹری سے برآمد ہو تو میڈیا تو پوچھے گا کہ کون سا احتساب اور کیسی مزاحمت؟ آخر احتساب خان سے پوچھنا پڑتا ہے کہ تقریباً پونےدو سال کے دور اقتدار میں ایسا کونسا طوفان برپا ہوا، کون سی ایسی قیامت ٹوٹ پڑی کہ صرف 2019میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گیس کی قیمت 55، بجلی ٹیرف 18.5، پٹرول 16، صحت سہولیات 11، آٹا 16، دالیں 54، آلو 42، ٹماٹر 150 سے زائد، سبزیاں 40، چینی 33، مصالحہ جات 19، خوردنی تیل 16فیصد مہنگا ہوگیا اور نومبر میں مہنگائی کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔
ریکارڈ توڑ غیر ملکی قرضے بھی لیے جا رہے ہیں اور ترقی کا سفر پھر بھی شروع نہیں ہو سکا۔ سب مخالفین کو جیلوں میں ڈال کر بھی رکھا اور پھر بھی مزاحمت سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ احتساب خان نے چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں کے نام پر غریب عوام کو پہلے دن سے احتساب کی جس بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے اس کا نتیجہ کیا نکلا؟
سیاستدانوں، بیورو کریٹس، صنعت کاروں، تاجروں کا جو استحصال کرنا تھا سو کیا، لیکن اس سارے ڈرامے میں اصل احتساب کس کا ہوا؟ صرف غریب عوام کا، جن کے جسموں سے احتساب کا انجکشن لگا کرخون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا گیا۔ آج گھرگھر بے روزگاری، لاچاری، مایوسی کے ڈیرے ہیں اور مایوسی کی حالت میں قتل و غارت کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ غریب تو غریب اب تو سفید پوشوں کے زندہ رہنے کے بھی تمام راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ عارضی پناہ گاہیں گلی گلی، محلے محلے مستقل قائم کرنا پڑیں گی، کیا کبھی احتساب خان نے یہ سوچا ہے کہ آخر یہ لوگ پناہ لینے پر مجبور کیوں ہوئے؟
سڑکوں پر سونے والوں کو سہولتیں ضرور دیجئے مگر ساتھ یہ بھی سوچئے کہ جس مزدور کو محنت کے بجائے پناہ گاہوں میں آرام سے سونے، پیٹ بھر کر کھانا کھانے کی مستقل عادت پڑ گئی وہ گھر میں بیٹھے بھوکے بیوی بچوں کی کفالت کیسے کرے گا؟ پناہ گزینوں کی مجبوری کو سمجھئے، ان کے مستقل روزگار کا کوئی بندوبست کیجئے۔
احتساب خان کی بدنظمی، بوکھلاہٹ زدہ سرکار کی بوتل سے مہنگائی کا جو جن نکلا ہے وہ بےرحمانہ انداز میں غریبوں کو نگل رہا ہے۔ شدید سردی کے موسم میں سرکار ایک نیا ڈاکہ مار رہی ہے۔ گھروں میں گیس آتی نہیں مگر بل پہلے سے بھی زیادہ بھیجے جارہے ہیں۔ آخر یہ پیسہ جا کہاں رہا ہے؟
غریب کو دو دھاری تلوار سے کاٹنے کا یہ نیا طریقہ ایجاد کرلیا گیا ہے کہ اگر گیس کے متبادل ایل پی جی استعمال کریں تو اس کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ کسان فاقہ کشی کی حالت سے خودکشی کی حالت تک پہنچ گیا ہے۔ کبھی احتساب خان نے یہ سوچا ہے کہ مافیا میڈیا میں نہیں ان کی اپنی منجی کے نیچے بیٹھا ہے،
اس کا بھی تو کوئی احتساب اور انجام ہو۔ کیا یہ سارے ترمیمی آرڈیننس ’’چیچو چیچ گنڈیریاں، دو تیریاں دو میریاں‘‘ اور غریب کے لئے سوکھی روٹی بھی نہیں؟