05 جنوری ، 2020
چینی کہاوت ہے کہ اگر آپ نے ایک خاندان (نسل )کو ترقی دینی ہےتو اس کو مچھلی پکڑنا سکھا دیں، دو خاندانوں (نسلوں) کو ترقی دینی ہو تو انہیں کاشتکاری پر لگادیں اور اگر پوری قوم ( موجودہ و آنے والی نسلوں ) کو ترقی کی راہ پر لگانا ہو تو انہیں تعلیم دےدیں۔ وطن عزیز کے دیرینہ دوست چین کی لیڈرشپ نے خود اور عوام کےذریعے اس نسخہ پر عمل کرکے محض چند برسوں میں معاشی، سماجی ترقی و طاقت کا لوہا دنیا بھر میں منوالیا مگر ہماری قیادت نے اپنی ذاتی ترقی کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئےدنیا بھر میں اپنی جائیدادیں اور بینک بیلنس بناکر ریکارڈ قائم کئے۔
قوم غریب تھی اس کو غریب رکھنے میں کوئی غفلت نہیں بر تی مگراسی غریب و متوسط طبقے نے نئے پاکستان کا خواب دیکھا اور تعبیر کے لئے ایک پڑھا لکھا اور کھیل کے میدان کاکامیاب کپتان چُنا اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے تیسری متبادل سیاسی قوت کو منتخب کرلیا!
نئی دہائی2020 کا نیا عیسوی سال شروع ہو چکا ہے لیکن ڈیڑھ سال پہلے بیلٹ باکس سے برآمد شدہ سونامی ہر طرف آہ وبکا کا خوف ناک منظرپیش کررہی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس سمیت عظیم الشان سرکاری عمارتوں کی تعلیمی درسگاہوں میں تبدیلی، بھینسوں، بکریوں،مرغیوںاور سرکاری گاڑیوں کی نیلامی، ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی فراہمی، مفت تعلیمی، طبی و سماجی فلاحی نظام کاقیام اور سادگی، سب کےسب وعدے قصہ پارینہ ہو چکے۔
طاقتوروں اور سیاسی لٹیروں سے اربوں کی واپسی، کرپشن کےخاتمے اوراین آر او نہ دینے کے دعوے ہوا ہو چکے۔ دیسی کٹوں،مرغیوں اور انڈوں سے معاشی انقلاب لانے کا خواب چکنا چور ہوچکا۔ عوام پچھلوں کو کیا روتے، تبدیلی نے ان کے درد اور تکلیف کو اس نہج پر پہنچا دیاہےکہ شکوے کے قابل بھی نہیں رہے، شکایت کی ہمت کریں بھی تو کس سے ؟ قسمت کےستاروں کی چال بتانے والے کہتےہیں کہ 22 نمبر کپتان کا لکی نمبر ہے اور 2020 ء کے دسمبر تک انہیں کوئی خطرہ نہیں مگریہ کیاکہ نئے سال کے پہلے روز ہی پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کابم گرادیا گیا شاید عوام کی چیخیں نکالنےکا اس سے بہتر فارمولا ابھی دریافت نہیں ہوا۔
شاید اس لئے بھی کہ منہ زور مہنگائی کا براہ راست نشانہ خود امیر ریاست ہیں نہ امیر کبیر کابینہ اور نہ ہی سندھ و پنجاب کے طاقتور اور بیمار سابق حکمران بلکہ اصل نشانہ 80 فیصد غریب و متوسط عوام ہیں جو کئی دہائیوں سے نئے پاکستان کے منتظر تھے،اب پچھتائیں بھی تو کیا ہوت؟ بس صبر ہی بچا ہے سو کر رہے ہیں۔ پھرکہہ دیا کہ گھبرانا نہیں۔ کاش کوئی کپتان اور over confident ٹیم کو سمجھائے کہ ان کے بے بنیاد دعوؤں، وعدوں اور آزمائشوں کا لامتنا ہی سلسلہ عوام کو جینےکی تمنا سے بھی محروم کر رہا ہے۔
چھ ماہ کا ہنی مون ڈیڑھ سال کی ریڈ لائن کراس کرچکا ہے، بلند حوصلہ عوام نے تو اپنے کاروبار اور گھربار کی تباہی کا حساب تک آپ سے نہیں پوچھا، ریاست مدینہ کا نام لےکر جو کچھ ان سے کہا گیا، انہوں نے دل و جان سے مانا مگر دلاسوں اور خواب دکھانے کا پردہ چاک ہوچکا ہے۔
اب عوام چاہتے ہیں کہ آپ عملی طور پرکچھ کر کے دکھائیں۔ملک کا عالمی سطح پروقار بلند اور امیج بڑھانا زبردست، اب اپنے گھر کےباسیوں کی عزت وناموس بحال کریں،بدحالی میں امیدوں کو حقیقت کا روپ دیں، باتیں نہیں کچھ کرکے دکھائیں، جس آزاد میڈیا نے احتجاجی و انتخابی جلسوں اور خالی کرسیوں کے دھرنوں کو 126 دن کا ریکارڈ بنانےمیں مدد کی اس کو بحال کریں، ایک نشست سے اقتدار کی کرسی تک سہارا دیا، مسیحا اور نجات دہندہ بناکر پیش کیا،اسی میڈیا کو عوامی خواہشات کا ترجمان بننے دیں۔
خدارا رحم کریں، خود فریبی سےنکل کرمیڈیاکو آزاد کریں، ناپسندیدہ بات کوبرداشت کریں اورجوابی بیانیے سےاس کا توڑ کریں، میڈیا کو طاقت دیں تاکہ ریاست مدینہ کےخواب کی تعبیر میں بازو بن سکے۔
فوری تعلیمی اصلاحات کریں، یکساں نصاب اور نظام تعلیم لاگو کریں تاکہ امیر اور غریب کے بچے تعلیم کی دولت سے محروم نہ رہیں۔ مافیا کے ہاتھوں یرغمال صحت کے شعبے کو آزاد کرائیں تاکہ عوام کو سرکاری و نجی اسپتالوں میں سستی علاج معالجے اور ادویات کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ ایک غریب و بےسہارا طبقےکو چھت اور کھانے کی عارضی فراہمی حوصلہ افزا مگر تمام ضرورت مندوں کو مستقل چھت اور روزگار کاانتظام کریں۔
گندے پانی سےاسلام آباد اور تمام صوبوں کی دوتہائی آبادی یرقان اور دیگر موذی امراض کاشکار ہوچکی ہے، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے انتظامات کریں۔ بظاہر آپ کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں بندھا لگتا ہے لیکن جو ہاتھ کھلا ہے اسی سے کچھ کر دکھائیں، بولر ایک ہی ہاتھ سے توکمال کرتا ہے، یقین نہیں تو وقت نکال کر ’’one armed boxer‘‘ دیکھ کر خود کو احساس دلائیں۔
یقین کریں آپ کا دفاع کرنے والے تھک رہےہیں، مہر بلب اور منہ پھیر رہے ہیں، راقم کے گزشتہ کالم میں بدبو ختم کرنے اور تبدیلی کی خاطر جراب بدلنے کا تحریر کردہ واقعہ پراثر نہیں لگا اور آپ اتنے بھی بااثر نہیں... تو کچھ اور نہ سہی، کچھ نہ سہی، 2020میں بائیس سالہ جدوجہد کا سفر رائیگاں ہونے سے بچانے کے لیے وسیم اکرم پلس ہی بدل دیں!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)