03 جنوری ، 2020
ایئر یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ’اس سال ملک ٹیک آف کرے گا۔ لوگوں کو نوکریاں ملیں گی۔ خوشحالی آئے گی۔ سستے گھروں کا منصوبہ 40صنعتوں کو فروغ دےگا۔ ہمارا ہدف نظام ہے، ادارے ہیں، میرٹ ہے بے شک تیر نشانے کی طرف رواں دواں ہے‘۔
2019 عوام کے لیے مشکل ترین سال سہی مگر اس میں ادارے ضرور مضبوط ہوئے ہیں۔ ایجوکیشن میں یونیورسٹیز کی سطح پر بہت بہتر کام ہوا۔ پہلی بار یونیورسٹیوں میں کسی سفارش کسی سیاسی وابستگی کے بغیر وائس چانسلر لگائے گئے ہیں۔
مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر میں اس وقت صرف ایک ادارےکے متعلق بات کرنا چاہ رہا ہوں کہ پچھلے ڈیڑھ سال میں وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ یہ ادارہ پنجاب یونیورسٹی ہے۔ اس کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد ہیں۔
میں اپنے بھتیجے کے داخلے کیلئے اُن کے پاس گیا تو انہوں نے کہا ’’سوری منصور! پہلے کوئی داخلہ میرٹ کے خلاف ڈھونڈ لاؤ پھر سفارش کرنا۔ میں نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ وائس چانسلر کی اپنی عزیزہ کو پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ نہیں مل سکا۔
پنجاب یونیورسٹی میں پہلی بار پروفیسرز کی تعداد 105 ہو گئی ہے۔ تقریباً 21 سال بعد پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں تین پروفیسرز لگائے گئے ہیں۔ یہاں ایک مبارکباد ضروری ہے۔ ہمارے دوست اور معروف دانشور ڈاکٹر امان اللہ کی بھی بڑے عرصہ بعد پروفیسر کے عہدے پر ترقی ہوئی۔
243 طلبہ نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی جو ایک سال میں پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ گزشتہ سال چار ہزار کے قریب ملازمین کو میرٹ پر ترقی دی گئی۔
گیارہ سال بعد موجودہ انتظامیہ نے سینیٹ کی میٹنگز باقاعدگی سے کرانا شروع کیں۔ معمولی معمولی باتوں پر بڑی بڑی انکوائریوں اور جعلی جنسی ہراسگی کے مقدمات کا کلچر ختم کیا گیا۔ ملازمین اور اساتذہ میں عدم تحفظ کا ڈر ختم ہوا۔ باہمی اعتماد کی فضا رواج پائی۔
یکسوئی اور اطمینان سے علمی اور تحقیقی کام شروع ہوئے۔ پاکستان، ایشیا اور عالمی سطح پر یونیورسٹی کی کارکردگی کا درجہ بہتر ہوا ہے۔
اس کے تین مضمون عالمی درجہ بندی میں پہلے تین سو درجوں پر آئے ہیں جو ایک غیر معمولی کامیابی ہے، دنیا کی معروف یونیورسٹیز کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی کا علمی اشتراک نمایاں طور پر آگے بڑھا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی بہت جلد اپنا میڈیکل کالج بھی شروع کرنے والی ہے۔
یونیورسٹی کے تمام معاملات کو کمپیوٹرائزڈ کر دیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ اگلے سال تک یونیورسٹی میں کاغذ کا استعمال نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ آئی ٹی کے معاملات پر ڈاکٹر نیاز احمد نے خصوصی توجہ دی ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ آئی ٹی یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر بھی ہیں۔ وہاں بھی ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔
انہوں نے وہاں کمپیوٹر انجینئرنگ کا شعبہ بھی قائم کیا۔ ان کی کوشش ہے کہ یہ یونیورسٹی نئی نسل کو موجد، انجینئر اور سائنسدان بنا کر قومی معیشت میں اہم کردار ادا کرے۔ حکومت پاکستان نے ان کی اعلیٰ خدمات پر انہیں ستارۂ امتیاز دیا۔ وہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا کے وائس چانسلر اور نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد کے ریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں تبدیلی کا اندازہ اسی بات سے لگائیں کہ جب جنرل پرویز مشرف کو سزا سنائی گئی تو یونیورسٹی میں پاک فوج سے اظہار یکجہتی کیلئے ریلی نکالی گئی۔ریلی میں اساتذہ، ملازمین اور طلبہ و طالبات بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ ڈاکٹر نیاز احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کی قربانیوں کے باعث آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج نے قربانیاں دے کر ملک میں امن قائم کیا ہے۔ ہم بحیثیت قوم فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یونیورسٹی پر قدامت پرستوں کا قبضہ ختم ہوا ہے۔ یہاں فنونِ لطیفہ پر بھی بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔ توقع ہے کہ موسیقی کی وہ کلاسیں جو ایک طویل عرصہ سے یونیورسٹی کی بجائے الحمرا آرٹس کونسل میں جاری ہیں، اس سال واپس یونیورسٹی کی حدود میں آ جائیں گی۔ یہاں ڈرامے کو فروغ ملے گا۔
مصوری کے شہ پاروں کی نمائشیں ہوں گی۔ امیر خسرو کے نام سے صوفیانہ موسیقی کی ایک کانفرنس بھی زیرِ غور ہے۔ یونیورسٹی ’’کل پاکستان اہل قلم کانفرنس‘‘ کرانے کا بھی سوچ رہی ہے۔ یعنی ادارے مضبوط ہو رہے ہیں۔ کرپشن اور سفارش کا کلچر ختم ہو رہا ہے۔ اداروں میں فعالیت بڑھ رہی ہے، استحکام آ رہا ہے۔
مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور عسکری ادارے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے اپنا کام کر رہے ہیں۔ یہ ساری باتیں تو بڑی خوش آئند ہیں مگر مہنگائی۔ اُس کا کیا کیا جائے۔ ایک عفریت کی طرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔
جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہی ہے۔ غریب کو چاند کی گولائی دیکھ کر روٹی یاد آنے لگی ہے۔ متوسط طبقہ غربت کی لکیر تک پہنچنے والا ہے۔ قوتِ خرید میں کمی آ رہی ہے۔ تنخواہیں بڑھنے کے بجائے کم ہوئی ہیں۔ خود عمران خان سے پناہ گاہ کے دورے میں ایک مزدور نے کہا ’’کبھی کبھی کام ملتا ہے‘‘۔ یعنی روزگار کم ہوا ہے۔
حکومت کو اس طرف فوری توجہ دینا ہو گی۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی کے لئے آٹا، چاول، دال وغیرہ پر سبسڈی دینا ہوگی۔ کم از کم یوٹیلیٹی اسٹورز میں سستی اشیا کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے خصوصی درخواست ہے کہ وہ پنجاب کے ترقیاتی بجٹ میں سے کم از کم اشیائے خور و نوش کی سبسڈی کے لئے 50 ارب دینے کا حکم جاری کریں اور بیورو کریسی سے اس پر عملدرآمد کرائیں۔ وگرنہ منصور آفاق بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جائے گا۔
غریبوں کا مقدر پستیاں ہیں
امیروں کی علیحدہ بستیاں ہیں
ابھی تک اپنے پاکستان دو ہیں
کہیں غربت، کہیں خرمستیاں ہیں
میں سچائی روایت کر رہا ہوں
میں اعلانِ بغاوت کر رہا ہوں
ابھی ہر چور صادق اور امیں ہے
کوئی تبدیلی آئی ہی نہیں ہے
فقط مہنگی ہوئی ہے دال روٹی
جہاں جو چیز تھی، باقی وہیں ہے
حکومت سے عداوت کر رہا ہوں
میں اعلانِ بغاوت کر رہا ہوں