Time 13 جنوری ، 2020
پاکستان

پاکستان کی معاشی رینکنگ میں تنزلی

فوٹو: فائل

برطانیہ کے سینٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ(CEBR) کی حال ہی میں عالمی معیشت کی رینکنگ پر جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2019ءمیں دنیا کے 193ممالک میں پاکستان 44ویں نمبر پر جبکہ امریکہ پہلی، چین دوسری، جاپان تیسری، جرمنی چوتھی اور بھارت کوپانچویں بڑی معیشت قرار دیا گیا ہے جبکہ 2018ءمیں پاکستان 41ویں پوزیشن پر تھا۔

اسی رپورٹ کے مطابق 2034ءمیں پاکستانی معیشت 50ویں پوزیشن پر ہوگی جبکہ پہلے نمبر پر چین، دوسرے پر امریکہ اور تیسرے نمبر پر بھارت بڑی معیشتیں ہوں گی۔ CEBRکی گزشتہ سال کی رپورٹ میں تھنک ٹینک نے پاکستان کو 2028ء میں 37ویں اور 2033ءمیں 27ویں بڑی معیشت بتایا گیا تھا۔

اس معاشی رینکنگ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ معاشی تھنک ٹینک خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں مستقبل میں پاکستان کی معاشی گروتھ میں کمی دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کی معاشی گروتھ کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ 2019میں پاکستان کی جی ڈی پی 3فیصد رہی جبکہ 2018میں یہ 5.5فیصد تھی۔

رپورٹ کے مطابق 2020سے 2025تک پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 4.2فیصد رہنے کی توقع ہے۔

پاکستان 2018میں معاشی بحران کا شکار ہوا تھا جب زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 8ارب ڈالر کی سطح پر آگئے تھے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6سے 7فیصد تک بڑھ گیا تھا، ایکسپورٹس میں کمی اور امپورٹس میں ریکارڈ اضافے کی وجہ سے تجارتی خسارہ 38ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گیا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کو 12ویں مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔

اس دوران سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین نے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کیلئے پاکستان کو سوفٹ ڈپازٹ دیئے اور سعودی عرب نے پاکستان کو ادھار تیل سپلائی کی سہولت فراہم کی۔

آئی ایم ایف کی شرائط مانتے ہوئے حکومت نے پاکستانی روپے کی قدر میں 35فیصد اور ڈیڑھ سال میں تقریباً 50فیصد ڈی ویلیو ایشن کی جس سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور افراط زر یعنی مہنگائی میں اضافہ ہوا لیکن حکومتی اقدامات سے رواں مالی سال تجارتی اور مالی خسارے میں تقریباً 35فیصد کمی لائی گئی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھ کر 18ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں جس میں 11.5ارب ڈالر اسٹیٹ بینک اور 6.6ارب ڈالر نجی بینکوں کے ڈپازٹس شامل ہیں۔

زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی ایک وجہ پاکستانی روپے کی قدر 154روپے پر مستحکم ہونے کی وجہ سے بیرونی فنڈز منیجرز کی پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تقریباً 1.2ارب ڈالر کی پورٹ فولیو انویسٹمنٹ (ہاٹ منی) ہے۔

یہ بیرونی سرمایہ کار 1.5سے 2فیصد شرح سود پر بیرون ملک ڈالر میں قرضے لے کر پاکستان میں 13فیصد شرح سود پر پاکستانی روپے میں ٹریژری بل میں سرمایہ کاری کررہے ہیں جس سے بیرونی سرمایہ کاروں کو تقریباً 11فیصد منافع حاصل ہورہا ہے۔

میرے خیال میں بہتر ہے کہ حکومت 6فیصد شرح سود پر طویل المیعاد ڈالر سکوک بانڈز کا اجرا کرے۔اس طرح ہم آدھا منافع بچا سکتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے روپے کی قدر کے استحکام کیلئے کئی بار شرح سود میں اضافہ کرنے سے مرکزی بینک کا ڈسکائونٹ ریٹ 13.25فیصد اور بینکوں کے قرضہ دینے کی شرح سود15 اور 16فیصد تک پہنچ گئی جس نے ملک میں نئی صنعتوں میں سرمایہ کاری اور نئی ملازمتوں کے مواقع کو متاثر کیا جبکہ رواں مالی سال جولائی سے دسمبر تک نجی شعبے کے بینکوں سے قرضے لینے کی شرح میں 77فیصد کمی ہوئی ہے جو گزشتہ مالی سال کے 504ارب روپے کے مقابلے میں کم ہوکر 2019تا20میں صرف 117ارب روپے رہ گئے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

ایف بی آر کا زیادہ زور ریونیو کی وصولی پر رہا۔ رواں مالی سال کے 6مہینوں میں حکومت نے اپنے ہدف 2367کے مقا بلے میں 2080ارب روپے ریونیو حاصل کئے اور اس طرح ایف بی آر کا پہلے 6مہینے میں ریونیو شارٹ فال 287ارب روپے رہا جس کی وجہ سے رواں مالی سال منی بجٹ آنے کا قوی امکان ہے مگر رواں مالی سال ایف بی آر نے پہلی ششماہی میں تقریباً 17فیصد ریونیو گروتھ حاصل کی لیکن اصل گروتھ کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں صنعتوں میں سرمایہ کاری ہو جس کیلئے اسٹیٹ بینک کو جلد از جلد ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی کرنا ہوگی تاکہ قرضوں کی شرح سود سنگل ڈیجٹ ہوسکے۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے رواں مالی سال پہلی ششماہی میں اسٹیٹ بینک کے بجائے نجی بینکوں سے گزشتہ 3برسوں کے مقابلے میں ایک کھرب روپے یعنی 55فیصد اضافی قرضے لئے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بینک نجی شعبے کو قرضہ دینے کے بجائے حکومتی پیپرز میں پُرکشش شرح سود پر قرضہ دینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پاکستان کو بیروزگاری اور غربت میں کمی لانے کے لئے مسلسل 5سال تک 6سے 7فیصد جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنا ہوگی جیسی خطے کی دیگر ابھرتی معیشتوں چین اور بھارت کی ہیں۔

عالمی اور علاقائی معیشتوں کا جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کو زرعی اور صنعتی شعبوں کو فروغ دے کر مسلسل کئی سال تک ایکسپورٹ لیڈ گروتھ سے اونچی جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنا ہوگی۔

مزید خبریں :