05 جنوری ، 2020
قومی اسمبلی میں مراد سعید نے سال نو پر مژدہ سنایا ہے کہ حکومت نے معیشت کو آئی سی یو سے نکال دیا ہے، حالانکہ غربت و مہنگائی کی وجہ سے عوام آئی سی یو میں ہیں تاہم عوام کا آئی سی یو میں جانا اگر معیشت کا آئی سی یو سے نکلنا ہے تو پھر واقعی ہم نے ترقی کر لی ہے!
حکومت نے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ صرف تقریریں کرنے سے ہی مسئلہ کشمیر سے غربت و مہنگائی تک، تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس کے وزیر و مشیر الفاظ چبا کر، چہرے سجا کر اور گردنیں گھما کر جس انداز میں بیانات دیتے ہیں، ماضی کے ولن کا یاد آنا تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کیا وہ عوام کو اس قدر سادہ سمجھتے ہیں کہ آئے روز ان کے بیانات کی تردید حقائق کے تناظر میں ہونے کے باوجود یہ پھر بھی اسی نوع کے بیانات داغنے سے باز نہیں آتے۔ اس قسم کے بیانات ریکارڈ تعداد میں ہیں۔
ہم مگر یہاں اُن کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بجائے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ وفاقی وزیر کا بیان کس قدر سچائی لئے ہوئے ہے۔ علمِ معاشیات میں انسانی زندگی و فلاح اور اس کے معاشی ترقی سے متعلق تمام امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اب سادہ سی بات یہ ہے کہ اگر کوئی معاشی ترقی ہوئی ہوتی تو اس کا لامحالہ عوام پر مثبت اثر پڑتا، تو کیا ایسا ہوا ہے؟ کہا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف نے تو سند دیدی ہے کہ پاکستانی معیشت کے گمبھیر مسائل حل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
اس کا جواب حکومت ہی کا ایک ادارہ ان الفاظ میں دیتا ہے ’’عوام کیلئے 2019ء مہنگائی کا سال رہا‘‘، وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق دسمبر کے تیسرے ہفتے کے دوران ہفت روزہ بنیاد پر مہنگائی میں اضافے کی اوسط شرح 18.5فیصد تک پہنچ گئی، گزشتہ سال دسمبر کے چوتھے ہفتے میں یہ شرح 5.5فیصد تھی۔ رپورٹ کے مطابق کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی 51بنیادی اشیا میں سے 47اشیا گزشتہ سال دسمبر کے مقابلے میں 174فیصد تک مہنگی ہو چکی ہیں۔
یعنی معاشی ترقی کی صورت میں گزشتہ سال دسمبر میں مہنگائی کی جو شرح 5.5فیصد تھی، وہ مزید کم ہوتی مگر اس سال دسمبر میں حکومتی ادارے کے مطابق مہنگائی کی شرح بڑھ کر 18.5فیصد تک پہنچ گئی ہے، تو سوال یہ ہے کہ پھر آئی ایم ایف کیوں ایسا کہہ رہا ہے، بات واضح اور سادہ ہے کہ چونکہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ لادنے ہی کی وجہ سے آئی ایم ایف کو قرضے کی قسط اور سودی رقم طے شدہ معاہدے کے مطابق مل رہی ہے، اس لئے اس شاباش کا مطلب محض یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے عوام پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال کر آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتی جائے۔
ستم یہ ہے کہ جہاں انسانی ضرورت کی ہر چیز آئے روز مہنگی ہو رہی ہے وہاں سب سے زیادہ اضافہ جان بچانے والی ادویات میں کیا گیا ہے۔ گویا اس طرح انسانی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھانے کو معاشی ترقی کہا جا رہا ہے۔ مستقبل کے حوالے سے بھی حکومت کے دعوے یوں حقیقت پر مبنی نہیں ’کے الیکٹرک‘ کے صارفین کیلئے فی یونٹ بجلی 4روپے 90 پیسے مہنگی کر دی گئی ہے، یوں اس اضافے سے فی یونٹ بجلی کی اوسط قیمت 17روپے 69پیسے ہو جائے گی۔
مزید ظلم یہ ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ 2016کی جولائی تا ستمبر سہ ماہی سے شروع ہوگا یعنی اب بقایاجات بھی بل میں شامل کئے جائیں گے۔ بنا بریں حکومت آئی ایم ایف سے وعدے کے مطابق رواں ماہ (جنوری 2020) میں پاور اور گیس ٹیرف میں 15فیصد اضافے کے جو دو ٹیرف جاری کرے گی، اس سے اگلے چند ماہ میں مزید مہنگائی بڑھے گی۔
آئی ایم ایف کے بہتری کے اشاروں کے برعکس برطانیہ کے سینٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ کی حالیہ رپورٹ کا کہنا یہ ہے کہ 2019میں جی ڈی پی کے لحاظ سے پاکستان کی معاشی نمو 3.3فیصد رہی جبکہ 2018ء میں یہ شرح 5.5فیصد تھی۔ ہماری حکومت کا دعویٰ ہے کہ آئندہ سالوں میں پاکستان برق رفتار ترقی کرے گا لیکن اس رپورٹ کے مطابق دور دور تک اس کے امکانات نہیں.
رپورٹ کے مطابق 14سال بعد چین پہلی، امریکا دوسری، بھارت تیسری بڑی معاشی طاقت ہوگا جب کہ پاکستان 50ویں نمبر پر ہوگا۔ معیشت کی دگرگوں حالت اور غربت، بیماری، مہنگائی، بیروزگاری میں آئے روز اضافے اور دور دور تک اس کے خاتمے کے آثار نظر نہ آنے کے باوجود اگر مراد سعید صاحب بضد ہیں کہ عمران خان نے معیشت کو آئی سی یو سے نکال دیا ہے تو اس کے ماسوا ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔
خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے