Time 15 جنوری ، 2020
پاکستان

زرداریوں سے اعوانوں، ایوانوں سے کھانوں تک

فوٹو: فائل

’’درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا‘‘ پاکستان کے ’’حالاتِ حاضرہ‘‘ ہنسی مذاق پر اُتر آئے ہیں، آلاتِ جراحی کی جگہ چھریاں، کانٹے، چمچے استعمال ہو رہے ہیں۔

ہسپتال کی جگہ ہوٹل اور کڑوی کسیلی دوائوں کی بجائے لذیذ غذائوں سے علاج جاری ہے کہ آج کل یوں بھی ’’علاج بالغذا‘‘ کا رواج عام ہو رہا ہے، میں نہ قصہ گو ہوں نہ کہانی نویس، نہ افسانہ نگار۔

100 فیصد درست عرض کر رہا ہوں کہ آج کل خود صبح و شام مختلف قسم کی دوائوں کے ’’تھبے‘‘ کہا رہا ہوں، ڈاکٹر عظمت مجید میرے معالج ہیں جنہوں نے FOOD & NUTRITIONمیں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے اور وہ مجھے دی گئی دوائوں کے ڈھیر کو دوائیں نہیں ’’ فوڈ سپلیمنٹس‘‘ قرار دیتے ہیں جبکہ اس سے زیادہ بدمزہ ایکسر سائز کا تصور بھی ممکن نہیں۔

سفید چینی، پالش ہوئے چاول، میدہ سے بنی اشیا اور پراسیسڈ گوشت (مٹن، چکن، بیف) میرے لئے ’’حرام‘‘ قرار دیئے جا چکے ہیں لیکن میاں نواز شریف کی تو موجیں لگی ہوئی ہیں۔

مہنگے ترین ہوٹل میں خوش خوراکیاں اپنے عروج پر ہیں اور اُن کے صاحبزادے حسین نواز کا کہنا ہے کہ ’’ابا جی ہوا خوری کے لئے ہوٹل گئے ہیں کیونکہ یہ بھی اُن کے علاج کا حصہ ہے‘‘۔

اللہ ایسی بیماری میں مزید برکت ڈالے جس کا علاج ہی ہوا و غذا خوری ہو، سیانے سچ کہتے تھے کہ اللہ شکر خورے کو شکر دے ہی دیتا ہے۔ میاں صاحب خوش خوراک آدمی ہیں تو اُنہیں بیماریاں بھی ایسی عطا ہوئیں جن کا علاج ہی خوش خوراکی ہے۔

ہمارے بچپن بلکہ ٹین ایج میں مظہر شاہ نامی ایک انتہائی مقبول ولن ہوا کرتا تھا جس کی جوڑی اکمل کے ساتھ ایسے ہی سپرہٹ تھی جیسے بعد میں سلطان راہی مصطفیٰ قریشی کی، مظہر شاہ بڑھک کا ’’موجد‘‘ تھا جس کے مکالمے اپنے زمانے میں زبان زدِ عام ہوا کرتے تھے جن میں سے ایک آج بہت یاد آ رہا ہے۔

وہ مکالمہ تھا.......’’ٹبر کھا جاواں تے ڈکار نہ ماراں‘‘یعنی پورے کا پورا خاندان بھی کھا جائوں تو ڈکار تک نہ لوں،کچھ لوگوں کے ہاضمے مظہر شاہ سے بھی چار نہیں چالیس کوس آگے ہوتے ہیں کہ پورے پورے ملک کی معیشت بھی کھا جائیں تو ڈکار تک نہیں لیتے۔

اسپتال یعنی ہوٹل میں نواز شریف کے ایک طرف شہباز شریف تو دوسری طرف اسحٰق ڈار بیٹھے ہیں جن کے گھر کا نام ’’ہجویری ہائوس‘‘ تھا لیکن بقول نیب پیشہ ہیرا پھیری تھا کہ ہندسوں کی ہیرا پھیری میں کمال رکھتے تھے۔

مزاروں کو عرقِ گلاب سے غسل دیتے اور قیمتی چادریں چڑھاتے چڑھاتے ملکی معیشت کو بھی غسلِ مرگ دے کر اس پہ سفید چادر چڑھا گئے، رہ گئے برادر خورد برد تو ان کے بارے میں اک تازہ ترین خبر کی صرف دو سرخیاں دیکھ لیں۔

’’10سال میں شہباز اور اہلِ خانہ کے اثاثوں میں 450فیصد اضافہ‘‘حمزہ شہباز کے اثاثوں میں 100جبکہ سلمان شہباز کے اثاثوں میں 900 فیصد اضافہ ہوا‘‘ ادھر برطانوی صحافی ڈیوڈ روز مسلسل چیلنج کر رہا ہے کہ خادم اعلیٰ دھمکی دینے کے باوجود اس پر کیس کیوں نہیں کر رہے۔

ہماری اجتماعی یادداشت پولیو زدہ ہے اس لئے یاددہانی کے لئے ایک بار پھر عرض ہے کہ ڈیوڈ روز نے ’’ڈیلی میل‘‘ نامی اخبار میں خادم اعلیٰ پر یہ گھنائونا الزام لگایا تھا کہ آپ زلزلہ زدگان کو ملنے والی امداد پر ہاتھ صاف کر گئے تھے، اس جملے پہ اپنا ہی اک جملہ یاد آ رہا ہے کہ ....’’ان لوگوں کے دامن بھی صاف ہیں، ہاتھ بھی صاف ہیں اور ملکی خزانہ بھی صاف ہے‘‘۔

یہ وہ خوش خوراک ہیں جنہیں ’’ٹمی ٹک‘‘ جیسی مائینر اور بےضرر سی سرجری کی سخت ضرورت ہے ورنہ خطرہ ہے کہ جونکوں کی طرح پھٹ جائیں گے، جونک بارے مشہور ہے کہ یہ خون پینا شروع کرے تو تب تک پیتی چلی جاتی ہے جب تک پھٹ نہ جائے۔

’’ٹمی ٹک‘‘ کی ضرورت بھی ان لوگوں کو پڑتی ہے جو کھاتے وقت ہاتھ اور منہ کو بریک لگانا بھول جاتے ہیں، اس سرجری سے خوش خوراکوں کا معدہ کاٹ کر چھوٹا کر دیا جاتا ہے کہ ’’مزید‘‘ کی گنجائش ہی نہ رہے، کھانا چاہیں بھی تو کھا نہ سکیں اور معدےکا سائز آڑے آجائے لیکن میں نہیں جانتا کہ جن لوگوں کو ملکی وسائل ہڑپ کرنے کی بیماری ہو، انہیں کس قسم کی سرجری خوش خوراکی سے روک سکتی ہے۔ ان کے لئے پاکستان ملک نہیں، دسترخوان ہے۔

میں نے کالم کے آغاز میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کے ’’حالاتِ حاضرہ‘‘ ہنسی مذاق یعنی کامیڈی پر اتر آئے ہیں، اسپتال کی بجائے ہوٹل میں نواز شریف کے ’’علاج‘‘ کے ساتھ ساتھ اک اور افواہ بھی محو گردش ہے کہ ن لیگ کی قیادت ’’جانشینی‘‘ کے لئے جنید صفدر اعوان کے نام پر غور رہی ہے۔

ایسا ہے تو قوم کو مبارک ہو کہ مختصر ترین عرصہ میں ہماری قابلِ فخر تاریخ خود کو دہرانے کے لئے رواں دواں ہے۔کیسے؟ایسے کہ پہلے بھٹو کی ’’سیاسی سلطنت‘‘ اس کے نواسے بلاول کو منتقل ہوئی جو زرداری ہے اور اب تیاری ہے کہ نواز شریف کی ’’سیاسی سلطنت‘‘ جنید کو منتقل ہو جائے جو ’’اعوان‘‘ ہے۔

 بھٹوز سے زرداری تک اور شریفوں سے اعوان تک کی اس ’’پنگ پانگ‘‘ داستان کو اپنی پسند کا جو چاہیں عنوان دے لیں کہ:’’چل چلیئے دنیا دی اوس نکرےجتھے بندہ ناں بندے دی ذات ہووے‘‘فلمی پنجابی گانا پسند نہ آئے تو منیر نیازی کو یاد کریں جس نے کہا تھا :منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہےکہ حرکت تیز تر اور سفر آہستہ آستہزرداریوں سے اعوانوں تک ...... ایوانوں سے کھانوں تک۔’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ لیکن اصل کامیڈی یہ کہ ہمارا یہ سفر ’’آہستہ آہستہ‘‘ نہیں ....... ’’ریورس‘‘ کا ہے۔

مزید خبریں :