17 جنوری ، 2020
حکومت چلتی ہے حکمت سے لیکن یہ تو حماقت اور حقارت کے فیول پر حکومتی گاڑی چلانے پر بضد ہیں، جو مٹھی بھر اتحادیوں کو متحد اور راضی نہ رکھ سکے، اسے اللّٰہ ہی رکھے تو رکھے، ان کا اپنا موڈ اور میٹر کچھ اور ہی بتا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے قائد کی تو پھر کچھ سمجھ آتی ہے کہ اس کے کریڈٹ پہ بہت کچھ ہے لیکن جب ذاتی حیثیت میں صفر اور سوفیصد ’’ری فلیکٹڈ گلوری‘‘ میں خوامخواہ اچھلتے کودتے بونے اور سیاسی بالشتیئے’’جنات‘‘ دکھائی دینے کی اداکاری کرتے ہیں تو غصہ بھی آتا ہے، کوفت بھی بہت ہوتی ہے لیکن حیرت ہے کہ جسے قیمت چکانی پڑے گی اسے خبر ہی نہیں۔
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانےباغ تو سارا جانے ہےاب جو ورد شروع ہے کہ ’’اتحادیوں کے تحفظات دور کریں گے‘‘ تو سوچنا انہیں یہ چاہئے کہ اس کی نوبت کیوں اور کیسے آئی؟حماقت کی انتہا یہ ہے کہ انہوں نے چودھری برادران جیسے لوگوں کو بھی زچ کر دیا جو بار بار عہدشکنی کے باوجود عرصۂ دراز تک شریفوں کو بھی برداشت کرتے رہے کہ وضعدار لوگ ہیں، اور تو اور اقتدار اور ملک تک چھوڑنے کے باوجود اس خاندان نے پرویز مشرف کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
چودھری شجاعت تو اس حد تک چلے گئے کہ پرویز مشرف صاحب کے ساتھ ہمارا بھی ٹرائیل ہونا چاہئے، پے درپے حماقتیں اور مزید حماقتیں چودھریوں کو اوازار کرنے سے بھی باز نہ آئیں۔
ابھی کل اک نجی ٹی وی چینل پر ق لیگ کے مرکزی رہنما کامل علی آغا کے انٹرویو میں ’’انکشافات‘‘ ہوئے کہ’’معاہدہ ہوا تھا کہ ق لیگ ارکان کو پی ٹی آئی کے برابر اختیارات ملیں گے‘‘ہمیں جو وزارتیں ملیں تین تین بار ان کے سیکرٹری تبدیل کر دیئے گئے ’’ایشوز پر مشاورت سے چلنے کا فیصلہ ہوا تھا۔
‘‘کرپشن کا ریٹ 500سے 50ہزار پر پہنچ چکا ہے‘‘مولانا کا دھرنا یا کوئی مسئلہ ہو، ساتھ دیتے ہیں بلیک میل نہیں کرتے’’کل ہم اور پی ٹی آئی الیکشن میں عوام کو کیا منہ دکھائیں گے‘‘ تازہ ترین یہ کہ مطالبات پر عملدرآمد کیلئے ق لیگ نے انصاف کو ایک ہفتہ کی مہلت دی ‘‘۔
خواب میں چلنے کی مریض پی ٹی آئی کو کسی نے یہ بھی نہیں سمجھایا کہ مونس الٰہی کو تو ن لیگ نے اک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ٹارگٹ کیا تھا کہ چودھری برادران کی سیاست آگے منتقل نہ ہو سکے کیونکہ ان کے باقی بچوں میں اور کوئی لمبی چوڑی دلچسپی ہی نہیں رکھتا۔
ایم کیو ایم و دیگر کی بیزاری بھی حکومت نے بڑی محنت سے کمائی ہے تو مجھے حضرت امیر معاویہ ؓ کا ایک حکمت بھرا بیان یاد آ رہا ہے۔ آپ نے تعلق کی ’’تعریف ‘‘ کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی وحشی بدو کے ساتھ بھی میرا تعلق قائم ہو جائے ،اس کے اور میرے درمیان کچے سوت کا دھاگہ ہو اور وہ بدوکسی تیز رفتار اونٹ پر بیٹھ کر صحرا کی طرف دوڑ پڑے تو میں اپنے اور اس کے درمیان والے اس دھاگے کو ٹوٹنے نہیں دوں گا۔
اسے کہتے ہیں سیاست، حکومت اور حکمت لیکن یہاں تو جسے دیکھو ہوا کے گھوڑے پر سوار چابک پہ چابک چلائے جا رہا ہے اور ان باتوں، حرکتوں سے بھی باز نہیں آرہے جن کے بغیر بہ آسانی گزارہ ہو سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے لوگوں کی اکثریت ایف 16 پر بیٹھ کر اڑتے تیر کے تعاقب میں روانہ ہو جاتی ہے اور ان کےکرتوت دیکھ کر یقین ہونے لگتا ہے کہ کامن سینس واقعی اتنی کامن نہیں۔
ایک ہسپانوی محاورہ کا ترجمہ ہے، "A HANDFUL OF COMMON SENSE IS WORTH A BUSHEL OF LEARNINGʼʼ حکمت اور دانائی نصیب نہیں تو نہ سہی حماقت کم کرکے حقارت سے جان چھڑا کر کامن سینس پر ہی فوکس کر لیں جس کے بارے سیانے کہتے ہیں۔"AN UNUSUAL AMOUNT OF COMMON SENSE IS SOMETHING CALLED WISDOM یاتو آتے ہی بھاری پتھر چوم اور چھوڑ کر چلے جاتے لیکن اب تو بری طرح پھنس گئے۔
ٹرم پوری کرو تاکہ کچھ دال دلیا کرسکو ورنہ رستے میں ہی رہ گئے تو سمجھو گئے کام سے وہی حال ہو گا جو کچی یاریاں ٹوٹنے والیوں کا ہوتا ہے،کچی ٹٹ گئی جنہاں دی یاریپتناں تے رون کھڑیاں اس نازک مقام اور مرحلہ پر کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو نیچو نیچ ہی سمجھو۔
کامل علی آغا سچ کہتا ہے کہ ’’کل ہم اور PTIالیکشن میں عوام کو کیا منہ دکھائیں گے‘‘مختصراً یہ کہ مہم جوئی ہرگز نہیں، ہر قیمت پر ٹرم پوری کرو ورنہ قیمت چکانی ناممکن ہو جائے گی۔کم ازکم منہ دکھانے جوگا وقت تو حاصل کرلو ورنہ سمجھو22سال کی محنت ڈیڑھ دوسالہ حکومت میں برباد ہو گئی۔