16 جنوری ، 2020
میرے گزشتہ کالم ’’جادو کی چھڑی!‘‘میں ایڈیٹوریل کمیٹی نے صرف ایک تبدیلی کی، جس کے لیے مجھ سے رابطہ کرکے کہا گیا کہ کالم میں ایک جگہ ’’بوٹ‘‘ کا ذکر ہے جسے کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق سینسر ہونا چاہئے۔
کمیٹی نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ بوٹ سے کوئی غلط مطلب اخذ کر لیا جائے یا کہیں کوئی ناراض نہ ہو جائے، لیکن گزشتہ روز وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے ایک ٹی وی چینل کے لائیو ٹاک شو کے دوران سب کے سامنے بوٹ اُٹھا کر میز پر رکھ دیا۔
یہ بوٹ فوجی تھا جسے خوب چمکایا بھی گیا تھا۔ میز پر رکھتے ہوئے فیصل واوڈا نے پھر جو کمنٹری کی اُس کا بظاہر مقصد ن لیگ کو بالخصوص اور اپوزیشن کو بالعموم ذلیل کرنا تھا لیکن اس تماشے نے بوٹ کا بھی تماشا بنا دیا۔ فیصل واوڈا نے کہا، جو ووٹ کی عزت کی بات کرتے تھے وہ اتنے گر گئے کہ اُنہوں نے اس بوٹ کو چاٹ لیا، وہ لیٹ بھی گئے اور بوٹ کو چوم بھی لیا۔
وفاقی وزیر کے اس عمل پر ٹاک شو میں موجود ن لیگ اور پی پی پی کے رہنما وفاقی وزیر کو یہ کہتے ہوئے شو چھوڑ کر چلے گئے کہ اس بوٹ کو اپنے گلے میں لٹکا لو۔ جاتے ہوئے پی پی پی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے وفاقی وزیر کی اس حرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر اپنے اس عمل سے یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فوج کے پریشر میں ن لیگ اور پی پی پی نے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے لیے بنائے گئے قانون کے حق میں ووٹ دیا۔
کائرہ صاحب نے کہا کہ یہ بوٹ سامنے رکھ کر وزیر صاحب فوج کو کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ فوج نے کروایا ہے، ٹاک شو کے دوران بوٹ سامنے رکھ کر دراصل وزیر صاحب نے فوج کا تماشا بنا دیا ہے۔ کائرہ نے یہ بھی کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پی پی پی ہو ن لیگ یا اپوزیشن کی دوسری جماعتیں، اُنہوں نے حکومت کے کہنے پر نہیں بلکہ فوج کے دباؤ میں آکر اس قانون کو پاس کروایا۔
بوٹ کے ساتھ ہونے والا شو بہت سوں کے لیے غیر اخلاقی ہوگا لیکن ریٹنگ کے بھوکے میڈیا کی نظر میں وہ ہِٹ ہو گیا اور ہٹ بھی ایسا ہوا کہ دوسرے چینلز نے بھی شو کے متعلقہ حصوں کو بار بار چلایا اور اخبارات نے بھی اس خبر کو شائع کیا۔
اس معاملہ پر بات کرنے سے پہلے میرا اپنے ایڈیٹوریل بورڈ سے سوال ہے کہ میرے کالم سے تو بوٹ کے ایک مرتبہ کے بے ضرر ذکر کو بھی سنسر کر دیا گیا لیکن جب ایک وفاقی وزیر بوٹ کو لے کر ٹاک شو میں آ بیٹھا تو ہر طرف بشمول جیو نیوز بوٹ ہی بوٹ کا ذکر ہونے لگا۔ یہ کیسی صحافت ہے کہ میں اپنے کالم میں ایک بار بھی بوٹ کا ذکر نہیں کر سکتا لیکن کسی دوسرے چینل میں ایک وفاقی وزیر فوجی بوٹ سامنے رکھ کر ٹاک شو میں اپوزیشن کا خوب مذاق اڑائے اور یہ سب لائیو چلا بھی دیا جائے۔
یہ کیسی سینسر شپ ہے کہ صحافت میں کچھ کے لیے بوٹ کا بے ضرر سا ذکر کرنا بھی جرم بن سکتا ہے جب کہ دوسروں کے لیے کھلی چھٹی ہے کہ اپنے شو میں فوجی بوٹ کو سامنے رکھوا کر بحث کی اجازت دے دیں اور اس پر نہ کہیں سے شکایت سامنے آئے نہ ہی گلہ۔
میں ذاتی طور پر ایسے شوز کے حق میں نہیں لیکن یہاں سینسر شپ کے دہرے معیار کا معاملہ ہے۔ صحافت سنجیدہ اور تہذیب کے دائرے میں ہی ہونی چاہیے۔ متعلقہ پروگرام میں وزیر صاحب نے جو باتیں کیں وہ نامناسب تھیں، اُنہیں روکا جانا چاہیے تھا لیکن اگر وہی باتیں وہ فوجی بوٹ کو سامنے رکھے بغیر اچھے الفاظ کے چناؤ کے ساتھ کرتے یا پروگرام کے اینکر ہی فیصل واوڈا کو ایسا کرنے سے فوری روک دیتے تو بہتر ہوتا۔
اُس سے شو تو شاید ہِٹ نہ ہوتا لیکن مثبت انداز میں یہ بحث ہو سکتی تھی کہ آیا جو کچھ گزشتہ چند ہفتوں میں ہوا، اُس میں بوٹ کا کوئی کردار تھا یا نہیں۔ اس کا فیصلہ تو لوگ کریں گے کہ فیصل واوڈا نے ٹھیک کہا یا اپوزیشن سچ بول رہی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ فیصل واوڈا نے بوٹ پر کی جانے والی بحث کو مین اسٹریم میڈیا میں ایک سیاسی معاملہ بناکر اچھال دیا ہے۔
فوجی بوٹ کا حوالہ کھلے عام سیاست سے جوڑ دیا جائے اور اسے قومی بحث کا حصہ بھی بنا دیا جائے تو یہ معاملہ سنجیدہ غور و فکر مانگتا ہے نہ کہ ہنسی مذاق، گھٹیا سیاست یا بے جا کی سینسر شپ۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)