سزا یافتہ پہلے خود کو پیش کرے، مشرف کی سزا کیخلاف اپیل اعتراض کے ساتھ واپس

سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے فیصلے کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کی اپیل اعتراض لگا کر واپس کر دی ہے اور کہا کہ سزا یافتہ جب تک خود کو قانون کے سامنے پیش نہ کرے اپیل دائر نہیں ہو سکتی— فوٹو: فائل

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیل اعتراض لگاکر واپس کردی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے فیصلے کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کی اپیل اعتراض لگا کر واپس کر دی ہے اور کہا کہ سزا یافتہ جب تک خود کو قانون کے سامنے پیش نہ کرے اپیل دائر نہیں ہو سکتی۔

سابق صدر پرویزمشرف نے خصوصی عدالت سے سزائے موت سنائے جانے کا فیصلہ 16 جنوری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔

جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپیل میں مؤقف اپنایا ہے کہ انہیں شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا، خصوصی عدالت کی تشکیل بھی غیرآئینی تھی، اس کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

سابق صدرپرویزمشرف نے اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا اور خصوصی عدالت کی جانب سے سزائے موت کا فیصلہ کالعدم قراردینے کی استدعا کردی۔

پرویز مشرف کی جانب سے 65 صفحات پر مشتمل اپیل سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں دائرکی۔

اپیل میں وفاق اور خصوصی عدالت کو فریق بنایا گیا ہے۔ پرویز مشرف نے مؤقف اپنایا ہے کہ ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کیس کا مقدمہ بناتے وقت کابینہ سے منظوری بھی نہیں لی گئی، اس لیے خصوصی عدالت کا قیام ہی غیر آئینی وغیر قانونی تھا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر 2019 کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی۔

بینچ کے دو اراکین نے فیصلے کی حمایت جب کہ ایک رکن نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے پرویز مشرف کو بری کیا تھا۔

خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرون ملک بھگانے والے تمام سہولت کاروں کو بھی قانون کےکٹہرے میں لانے کا حکم دیا اور فیصلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے جسٹس وقار سیٹھ نے پیرا 66 میں لکھا ہے کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہوجائیں تو لاش کو ڈی چوک پر لاکر 3 دن تک لٹکایا جائے۔

تاہم 13 جنوری 2020 کو لاہور ہائیکورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل ہی غیرآئینی قرار دے دی تھی۔

مزید خبریں :