18 جنوری ، 2020
سیہون میں پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کو جوڈیشل مجسٹریٹ امتیاز حسین بھٹو نے بیان قلمبند کرانے کے بہانے زیادتی نشانہ بنا ڈالا۔
شہداد کوٹ میں سلمیٰ بروہی اور نثار بروہی پسند کی شادی کے لیے گھر سے فرار ہوکر سیہون کے ایک گیسٹ ہاؤس میں رہائش پذیر تھے جہاں 13 جنوری کو لڑکی کے اہل خانہ سیہون پہنچے اور دونوں کو پکڑ لیا۔
معاملہ پولیس تک جا پہنچا تو پولیس لڑکی کو بیان کے لیے سینیئر جوڈیشنل مجسٹریٹ امتیاز بھٹو کے چیمبر میں لے گئی۔
ذرائع کے مطابق لیڈی پولیس اور عملے کو یہ کہہ کر عدالت سے باہر نکال دیا گیا کہ لڑکی کا بیان لینا ہے۔
جج نے لڑکی سے استفسار کیا کہ کیا وہ والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہے یا شوہر کے ساتھ؟ جس پر لڑکی نے شوہر کے ساتھ جانے پر حامی بھری۔
رپورٹ کے مطابق جج نے خوف میں مبتلا لڑکی کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے چیمبر میں لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کردی۔
متاثرہ لڑکی کی شکایت پر سیہون پولیس نے لڑکی کا عبداللہ شاہ انسٹی ٹیوٹ میں میڈیکل کرایا جہاں لڑکی کے ساتھ زیادتی کی تصدیق ہوگئی۔
ایک جج کا چیمبر میں انصاف کے لیے آنے والی لڑکی کے ساتھ زیادتی کے واقعے کے بعد عدالتی انتظامیہ میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا تھا جس پر سیشن جج نے انکوائری رپورٹ میں واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے فوری طور پر جوڈیشل مجسٹریٹ کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے جوڈیشل مجسٹریٹ امتیازحسین بھٹو کو معطل کردیا اور انہیں سندھ ہائیکورٹ رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے مطابق امتیاز بھٹو کو مِس کنڈکٹ کی بنیاد پر معطل کیا گیا ہے۔
رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانے کے لیے شدید دباؤ ہے تاہم ایک انتہائی سینیئر پولیس افسر نے بتایا کہ عدالت عالیہ کے سینیئر جج نے سیشن جج کے ذریعے انکوائری کرائی جس میں واقعے کی تصدیق کے ساتھ رپورٹ بھی ارسال کی۔