Time 19 جنوری ، 2020
پاکستان

کیا وزیراعظم عمران خان انڈر پریشر ہیں؟

وزیراعظم پاکستان عمران خان—فیس بک فوٹو

بطور کرکٹر عمران خان نے دباؤ کاہمیشہ لطف اٹھایا لیکن سیاستدان وزیراعظم عمران کچھ غلط کھیلتے اور اتحادیوں کودھکیلتے ہوئے اپنی حکومت کو غیر مستحکم کرتے ہوئے نظرآئے جس نے وفاق اور پنجاب حکومت کیلئے ناخوشگوار صورتحال پیدا کردی۔ 

’’توسیع‘‘کے بعد کے منظر نامے میں ہونے والی سیاسی پیشرفتوں سے کسی حد تک پر اعتماد وزیر اعظم عمران خان کی مرکز اور پنجاب حکومتوں اور پی ٹی آئی کے اندر مخلوط حکومت میں دراڑیں آنا شروع ہوگئی ہیں جس نے انہیں کچھ حد تک ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ فوری طور پر کسی بھی ’’اعتماد کے ووٹ‘‘یا’’ان ہاؤس‘‘ تبدیلی کی کسی قسم کی دھمکی نہیں ہے لیکن یقینی طور پر ان کے اتحادی ناخوش ہیں۔ 

اب زیادہ تر انحصار ان واقعات پر ہے جو اگلے چند ہفتوں میں پیش آسکتے ہیں۔وزیر اعظم کو اس وقت صرف اتنا فائدہ ہوا ہے کہ اپوزیشن تقسیم ہوئی ،جس کی وجہ سے جے یوآئی (ف) کاآزادی مارچ حکومت مخالف تحریک میں تبدیل ہونے میں ناکام رہا۔اس سے یقیناً دباؤ کم ہوا لیکن کیا وزیراعظم اپنے اتحادیوں سے کئے گئے زبانی یا تحریری معاہدوں کو پورا کر سکتےہیں۔

چاہے یہ اتفاق ہو یا کچھ اور جنوبی پنجاب محاذ( جے پی ایم) کے سوا حکومت کے سبھی اتحادیوں نے مختلف معاہدوں پر عمل درآمد نہ ہونے پر سرعام اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ رہنما ایم کیو ایم وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی پہلے ہی وفاقی کابینہ چھوڑ چکے ہیں، مسلم لیگ ق کے طارق چیمہ گجرات کے چودھریوں کی ہدایت پر احتجاج کے تحت کابینہ کے آخری اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ 

اس کے علاوہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے) نے بھی وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں وفاقی وزیرپرویزخٹک اور جہانگیرترین کے سامنے تحفظات رکھے ہیں،لیکن جی ڈی اے نے کابینہ چھوڑنے کافیصلہ نہیں کیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی(بی این پی مینگل) بھی وفاق کی طرف سے مطالبات پرعمل نہ ہونے کی وجہ سے حکومتی وفد سے ملی ہے تاہم دوسری اتحادیوں کی طرح بی این پی نے بھی اتحاد چھوڑنے کافیصلہ مؤخرکردیا ہے۔

حکمران جماعت کے اندر ایک لابی اس بات سے بھی خائف ہے کہ اتحادی اپنے طور پرکچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اپنے ہینڈلرزکی وجہ سے شواریوں کاشکار ہیں۔

 2018 کے انتخابات کے بعد ناقدین کاخیال تھاکہ حکومت اپنے اتحادیوں کیساتھ مینج نہیں کرپاتی تو مرکز اور خاص طور پر پنجاب میں عمران خان کے لئے حکومت بنانا ممکن نہیں ہوتا۔ لہذا جہاں مسئلہ دوسری صورت میں مثالی ، ʼسول اور فوجیʼ تعلقات میں شامل ہے ، کیونکہ پچھلے ہفتوں میں ہونے والی پیشرفتوں نے یقینی طور پر یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ اسلام آباد میں سب ٹھیک نہیں ہے۔

 وزیر اعظم عمران خان اپنے دو حریف سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی ضمانت حاصل کرنے اور اول الذکر کے بیرون ملک سفر کرنے پر خوش نہیں۔اپنی حالیہ حکمت عملی کے تحت اب وہ انھیں واپس جیل بھیجنا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں ایف آئی اے کو مزید ’’فری ہینڈ‘‘ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے اس عزم کو دہراتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ دونوں خاندانوں کو کسی بھی قسم کا این آر او نہیں دیں گے اور ان معاملات پر بھی غور و خوض کریں گے کہ انہیں کس طرح ریلیف مل رہا ہے۔ ایک متعلقہ پیشرفت میں قومی احتساب بیورو( نیب) نے پی ٹی آئی رہنما اور معاون خصوصی زلفی بخاری کو’’کلین چٹ‘‘ دی ہے، جبکہ دونوں فریقوں کی اعلیٰ قیادت کے خلاف کچھ نئے مقدمات کی تحقیقات کھولنے کا فیصلہ کیا تاہم، قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس میں جو سیاسی ماحول بہتر ہوا ہے اور’’ترمیمی بل‘‘ آسانی سے پاس ہوا اور سروسز ایکٹ 2019 میں ترمیم کی گئی ہے ، اس تنازعہ سے ایک بار  پھر سیاسی ماحول تناؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔

 حکومت نے مریم نواز کی بیرون ملک جانے کی کسی درخواست پر ناصرف مخالفت کا فیصلہ کیا ہے بلکہ نواز شریف کی حالیہ میڈیکل رپورٹ پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سندھ اور پنجاب میں وزیراعظم پارٹی کے اندر بھی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ شدید ہوگیا ہے اور پہلی بار حکمران جماعت کےکم سے کم 6 ایم این ایز نے وزیر اعظم سے اپنی تشویش کا اظہار کیا جبکہ ان میں سے 3 نے قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ علی زیدی پر بھی الزام لگایا تھا جس نے انہیں شرمناک پوزیشن میں لاکھڑا کیا۔

عثمان بزدارکی جگہ بطور وزیراعلی پنجاب پرویز الٰہی کی تبدیلی کی حمایت زور پکڑتی جارہی ہے اور انہیں مسلم لیگ کے مقابلے میں ایک بہترانتخاب سمجھا جا رہا ہے۔لیکن یہ بات وزیراعظم کے ساتھ ساتھ پارٹی کے مضبوط ترین رہنما جہانگیر ترین، وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی اور گورنر پنجاب چوہدری سرور کیلئے آسان نہیں ہے۔ 

وزیر اعظم کاچیف سیکرٹری کو مزید اختیارات دینے کا حالیہ فیصلہ جس میں وزیراعلیٰ کو براہ راست سمری نہ بھیجنے سے بزدار کیمپ میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ چنانچہ چیف سیکریٹری براہ راست مرکز سے آرڈر لیتے ہوئے ڈیفیکٹو وزیراعلیٰ بن گئے ہیں۔

سندھ میں ایم کیوایم اور جی ڈی اے دونوں پی ٹی آئی کی اتحادی ہیں اور دنوں ناخوش ہیں،اگرچہ جی ڈی اے چھوٹی جماعتوں پر مشتمل ہے،اگرحالات بدتر ہوتے ہیں تو جی ڈی اے کی 3 نشستوں سے بھی فرق پڑ سکتا ہے،جب کہ وہ صرف مرکز سے ترقیاتی فنڈز جاری کرنا چاہتے ہیں۔ 

ایم کیو ایم (پاکستان) کےحوالے سے معاملات کہیں زیادہ مکمل ہوچکے ہیں۔ اس کے مطالبات کی طاقتور حلقوں اور ایم کیو ایم ہی کے ذریعہ مخالفت کی جاسکتی ہے ، انہیں فنڈز اور منصوبوں کے حصول کے ساتھ معاملات طے کرنا پڑ سکتے ہیں۔ایم کیو ایم (پاکستان) سندھ میں بالخصوص کراچی اور حیدرآباد میں تازہ مردم شماری کی خواہاں ہے، اپنے سیکٹر اور یونٹ دفاترحوالے کرنا  لاپتہ افراد کی بازیابی،اعلیٰ رہنماؤں اور سیکڑوں کارکنوں کے خلاف زیر التوا مقدمات جلد از جلد نمٹانے کے لئے تاکہ انہیں مزید سیاسی جگہ مل سکے کی خواہ ہاں ہے۔

ماضی میں سابق ڈی جی رینجرز نےان مطالبات کوویٹو کر دیا تھا اوراس خدشہ کیساتھ سیکٹر اور یونٹ کھولنے کی مخالفت کی تھی کہ اس سے ایم کیو ایم (پاکستان) کو پرانا تنظیمی ڈھانچہ بحال کرنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ ایم کیو ایم نے ان خدشات کو مسترد کیا ہے اور وزیر اعظم اور دیگر متعلقہ افراد سے کہا ہے کہ وہ پارٹی پر شک کرنا چھوڑ دیں۔ اگلے ایک ماہ میں سیاسی پیشرفت دیکھنا دلچسپ ہوگا اور کچھ غیر سیاسی واقعات کے ساتھ ساتھ حکومت کو 2020 میں متعدد چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مزید خبریں :