20 جنوری ، 2020
سیہون میں پسند کی شادی کرنے والی لڑکی سے سینیئر جوڈیشل مجسٹریٹ کی مبینہ زیادتی کے واقعے کو 7 روز گزرنے کے باوجود کیس کی تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
13 جنوری کو عدالت میں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے آنے والی لڑکی سے سینیئر جوڈیشل مجسٹریٹ امتیاز بھٹو کی مبینہ زیادتی کے واقعہ کو 7 روز گزر چکے ہیں لیکن سینیئر مجسٹریٹ کو معطل کرنے کے علاوہ مزید کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔
پولیس کی جانب سے نہ تو جج کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے اور نہ ہی جج کا میڈیکل ہوا ہے جب کہ اسے ابھی تک گرفتار بھی نہیں کیا جاسکا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون نے مقدمہ درج کرانے سے انکار کردیا ہے، اس سلسلے میں سینیئر سپرنٹنڈٹ آف پولیس (ایس ایس پی) قمبرشہدادکوٹ کو خط لکھا ہے کہ خاتون سے رابطہ کرکے کہا جائے کہ وہ مقدمہ درج کرائے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جج کے خلاف مقدمہ کے اندراج کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں، مدعی ایف آئی آر درج نہ کرائے تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مقدمہ درج کرائے۔
واضح رہے کہ شہداد کوٹ کی سلمیٰ بروہی اور نثار بروہی پسند کی شادی کے لیے گھر سے فرار ہوکر سیہون کے ایک گیسٹ ہاؤس میں رہائش پذیر تھے جہاں 13 جنوری کو لڑکی کے اہل خانہ سیہون پہنچے اور دونوں کو پکڑ لیا۔
معاملہ پولیس تک جا پہنچا تو پولیس نے لڑکی کو بیان کے لیے سینیئر جوڈیشنل مجسٹریٹ امتیاز حسین بھٹو کی عدالت میں پیش کیا تاہم جج نے لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بناڈیا۔
بعد ازاں لڑکی نے اپنے ویڈیو بیان میں الزام لگایا کہ جج نے چیمبر میں اس کے ساتھ زیادتی کی ہے جب کہ میڈیکل رپورٹ میں بھی لڑکی سے زیادتی ثابت ہوئی ہے۔
ایک جج کی جانب سے اپنے چیمبر میں انصاف کے لیے آنے والی لڑکی کے ساتھ زیادتی کے واقعے کے بعد عدالتی انتظامیہ میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا تھا جس پر سیشن جج نے انکوائری رپورٹ میں واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے فوری طور پر جوڈیشل مجسٹریٹ کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے جوڈیشل مجسٹریٹ امتیازحسین بھٹو کو معطل کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔