دنیا
Time 20 جنوری ، 2020

امیرترین افراد 10 سال تک صرف 0.5 فیصد اضافی ٹیکس دیں تو کیا ہوگا؟

گزشتہ دہائی کے دوران ارب پتی افراد کی تعداد دگنی ہوچکی، دنیا کے 22 امیر ترین افراد کے پاس براعظم افریقا کی تمام خواتین کے پاس موجود دولت سے زیادہ پیسہ موجود ہے— فوٹو: فائل

عالمی سطح پر غربت کے خاتمے کیلئے کام کرنے والی برطانوی تنظیم آکسفام کا کہنا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران دنیا میں ارب پتی افراد کی تعداد دگنی ہوچکی ہے جبکہ دنیا کے 22 امیر ترین افراد کے پاس براعظم افریقا کی تمام خواتین کے پاس موجود دولت سے زیادہ پیسہ موجود ہے۔

آکسفام نے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کرنے والے عالمی رہنماؤں سے درخواست کی ہے کہ وہ امیروں اور غریبوں کے درمیان عدم مساوات کے اس فرق کو سنجیدگی سے لیں۔

آکسفام انڈیا کے سربراہ امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ہماری معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کے وجہ سے ارب پتیوں کی جیب مزید گرم ہورہی ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں لوگوں کا یہ سوال اٹھانا اچنبھے کی بات نہیں کہ آیا ارب پتیوں کا وجود ہونا چاہیے یا نہیں۔

عالمی اقتصادی فورم میں امیتابھ بہار ہی آکسفام کی نمائندگی کریں گے، ان کا کہنا ہے کہ عورتیں اور بچیاں موجودہ معاشی نظام سے سب سے کم مستفید ہوتی ہیں۔

امریکی اخبار بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق رواں برس عالمی اقتصادی فورم میں دنیا بھر سے 119 کے قریب ارب پتی افراد شرکت کریں گے جن کے اثاثوں کی کل مالیت 500 ارب ڈالر تک ہے اور ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق امریکا، بھارت اور روس سے ہے۔

آکسفام کے مطابق معاشی مثلث کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کھربوں ڈالرز کی دولت ارب پتیوں کے چھوٹے سے گروپ کے ہاتھ میں ہے جن میں اکثریت مردوں کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان افراد کی دولت پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور ہماری لڑکھڑاتی ہوئی معیشتیں ان چند لوگوں کی دولت میں مزید اضافہ کررہی ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں عورتیں اور بچیاں ہر روز 12.5 ارب گھنٹے دیکھ بھال کے کاموں میں گزار دیتی ہیں جس کے عوض انہیں کوئی اجرت نہیں ملتی حالانکہ اس کام کی سالانہ اجرات کا تخمینہ 10.8 ٹریلین ڈالرز لگایا گیا ہے۔

آکسفام کی سالانہ رپورٹ ہر سال عالمی اقتصادی فورم کے آغاز سے قبل جاری کی جاتی ہے۔ اس اجلاس میں شرکت کیلئے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان بھی ڈیووس جائیں گے۔

امیرترین افراد 10 سال تک صرف 0.5 فیصد اضافی ٹیکس دیں تو کیا ہوگا؟

فوٹو: اے ایف پی

آکسفام کے مطابق اگر دنیا کے امیر ترین افراد اپنی دولت 10 سال تک 0.5 فیصد اضافی ٹیکس دیں تو یہ رقم بوڑھے افراد، بچوں کی نگہداشت، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں 11 کروڑ 70 لاکھ نوکریوں کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کافی ہوگی۔

آکسفام کا ڈیٹا امریکی فوربس میگزین اور سوئس بینک کریڈٹ سوئس سے حاصل کردہ اعداد و شمار پر مبنی ہے تاہم بعض ماہرین اقتصادیات اس سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 2153 ارب پتیوں کے پاس مجموعی طور پر دنیا کے دیگر 4.6 ارب لوگوں کی مجموعی دولت سے زیادہ دولت موجود ہے۔

اس عدم مساوات کا سب سے زیادہ بوجھ خواتین اور بچیوں پر پڑتا ہے کیوں کہ وہی ان لوگوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں جو ہماری معیشتوں، کاروبار اور معاشروں کے پہیے چلاتے ہیں۔

خواتین اور کم عمر بچیوں کو دیکھ بھال کے کاموں کی وجہ سے حصول تعلیم، بہتر رہائش اور معاشرتی امور میں اپنے رائے تک دینے کا وقت نہیں مل پاتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ معاشی سائیکل میں سب سے نیچھے پھنس کر رہ جاتی ہیں۔

آکسفام کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 42 فیصد خواتین ملازمت نہیں کرسکتیں کیوں کہ ان پر دیکھ بھال کی ذمہ داری ہےجبکہ مردوں میں یہ شرح صرف 6 فیصد ہے۔

آکسفام نے اپنی رپورٹ میں عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ ایک ایسی معیشت کا قیام عمل میں لائیں جہاں خواتین دوست ہو اور اس چیز کو اہمیت دے جو واقعی معاشرے کیلئے ضروری ہے نا کہ منافع اور دولت کمانے کی ناختم ہونے والی دوڑ کو جنم دے۔ 

مزید خبریں :