22 جنوری ، 2020
امریکا کا صدر بننے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے متعلق پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے بارے میں نہایت سخت اور نازیبا لہجہ استعمال کیا جبکہ اِس کے برعکس اُس موقع پر ہندوستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے اُسے مزید توسیع دینے کی بات کی۔ تب پاکستان کی یہ کوشش تھی کہ امریکا افغانستان کے حوالے سے اِس کی قربانی اور تعاون کو تسلیم کرے اور مستقبل کی تشکیل میں اِسے اُس کی حیثیت کے مطابق کردار دے۔
آرمی چیف بننے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے طور پر بھی یہ کوشش کررہے تھے۔ اِسی تناظر میں پاکستان امریکیوں پر زور دیتا رہا کہ وہ طالبان کے ساتھ براہِ راست بات چیت کریں لیکن افغان حکومت کے دباؤ اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر وہ ایسا کرنے کو تیار نہ تھے۔ بالآخر مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے آخری ایام میں جب نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز پاکستان آئیں تو اُنہوں نے طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔ جس کے جواب میں پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں بھرپور کردار ادا کرنے کا وعدہ کیا۔
چنانچہ گزشتہ دس بارہ سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ امریکی حکام افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے کردار کی برملا ستائش کرنے لگے۔ امریکیوں نے نہ صرف طالبان سے مذاکرات میں سنجیدگی دکھائی بلکہ اپنے انخلا کے بعد افغانستان کے نئے سیاسی بندوبست میں پاکستان کے کردار اور اہمیت کو بھی تسلیم کیا۔
اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہندوستان اِس موقع پر آسمان سر پر اُٹھا لیتا لیکن حیرت انگیز طور پر اُس نے افغانستان کے معاملات سے اپنے بےدخل ہو جانے اور پاکستان کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھانے کے عمل پر کوئی خاص شور نہیں مچایا۔ اِس دوران ہم جیسے طالب علم یہ سوال اٹھاتے رہے کہ ہندوستان کی خاموشی بتارہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے لیکن سفارتی نزاکتوں سے نابلد عمران خان صاحب اور اُن کے مشیر معاملے کو نہ سمجھ سکے۔
عمران خان صاحب سمجھ رہے تھے کہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کو امریکا اپنے اوپر احسان سمجھ رہا ہوگا اور اس کے بدلے میں ہندوستان اور بالخصوص کشمیر کے محاذ پر ہمارے ساتھ تعاون کرے گا۔ اِسی لئے جب عمران خان کے دورۂ امریکا کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ کے منہ سے کشمیر پر ثالثی کا لفظ نکل گیا تو وزیراعظم اور اُن کے ترجمان خوش ہونے لگے۔
وطن واپسی پر ایسا تاثر دیا گیا کہ جیسے کشمیر فتح کرکے واپس لوٹ رہے ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے ذہن میں شاید یہ تھا کہ وہ کشمیر پر ثالثی ہندوستان کے حق میں کریں گے اور وہ بھی تب جب ہندوستان مانے گا۔ بعض باخبر لوگ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی کو یہ تاثر دیا تھا کہ مغربی بارڈر پر افغانستان میں پاکستان کو کردار دینے کے جواب میں وہ کشمیر کے فرنٹ پر اُنہیں(مودی کو) سپورٹ کریں گے۔
چنانچہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے بعد عمران خان صاحب ڈونلڈ ٹرمپ سے اس امید کے ساتھ ملے کہ وہ مودی کے کان کھینچ لیں گے تاہم انہیں یہ جان کر بڑی مایوسی ہوئی کہ اُلٹا وہ پاکستان کو صبر اور خاموشی کی تلقین کررہے ہیں۔ پاکستان او آئی سی اور نہ کوئی اور بلاک متحرک کرسکا اور ساری امیدیں ڈونلڈ ٹرمپ سے وابستہ کی گئیں۔ پھر جب اُنہوں نے آنکھیں پھیر لیں تو انڈیا پر دباؤ ڈالنے کے لئے کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے توقع امریکا سے لگائی تھی لیکن کسی حد تک حمایت چین، ترکی، ایران اور ملائیشیا نے کردی۔
مشرقی بارڈر پر جو ہونا تھا، وہ ہو توگیا لیکن سوال یہ ہے کہ اب مغربی بارڈر پر کیا ہوگا؟۔ وہاں صورتحال یہ ہے کہ امریکا اور طالبان کے مذاکرات دوبارہ آخری مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ صرف جنگ بندی کے معاملے پر تھوڑا سا اختلاف باقی ہے لیکن عنقریب وہ بھی دور ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے جہاں امریکا اور طالبان کے معاملات طے پانے کو ہیں، وہاں ابھی تک بین الافغان مذاکرات شروع بھی نہیں ہوئے۔
یوں اگر امریکیوں کے نکلنے کے بعد افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کی طرف جاتا ہے تو پاکستان کے لئے بھی نئی مصیبتوں کا موجب بنے گا۔ اس کے بعد بظاہر قضیے کے دو فریق یعنی طالبان اور افغان حکومت رہ جائیں گے لیکن حقیقت میں دو نہیں بلکہ زیادہ فریق ہوں گے کیونکہ صرف کابل حکومت فریق نہیں۔ جو صدارتی انتخابات ہوئے ہیں اُن کے نتائج عبداللہ عبداللہ، گلبدین حکمتیار اور رشید دوستم وغیرہ تسلیم نہیں کرتے۔
اِسی طرح طالبان کے ساتھ ڈیل کے معاملے میں حامد کرزئی جیسے لوگ بھی اشرف غنی کی حکومت کو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے حامد کرزئی جیسے لوگ زیادہ اہم ہیں۔
اب ان سب لوگوں کو ایک صفحے پر لانا اور پھر اُن کو اور طالبان کو ایک سیاسی نظام پر متفق کروانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ٹاسک ضرور ہے اور امریکا اِس مشکل ٹاسک کے لئے بھی پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ یہ کام اِس تناظر میں مشکل تر بن جاتا ہے کہ کابل میں بیٹھے ہوئے سیاسی عناصر مختلف ممالک کی پراکسیز کی حیثیت بھی رکھتے ہیں جبکہ طالبان کی صفوں میں بھی اب کئی ممالک اپنے بندے پیدا کر چکے ہیں۔
گویا کل تک ہم امریکا سے پاکستان کے لئے کردار کا مطالبہ کررہے تھے لیکن اب امریکا پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ ہم تو جارہے ہیں اور آپ سنبھالیں۔ اب اگر تو پاکستان بین الافغان مذاکرات کرانے اور سب کو کسی نظام پر متفق کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ افغانستان کے لئے بھی روشن مستقبل کا ذریعہ بن جائے گا اور پاکستان بھی اس کے فوائد سے مستفید ہو جائے گا لیکن اگر معاملہ الٹ ہوگیا تو نہ صرف پاکستان وہاں کی خانہ جنگی سے متاثر ہوگا بلکہ حسبِ روایت امریکا اور خود افغان پھر ناکامیوں کا ملبہ بھی پاکستان کے سر ڈالیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان صاحب کی حکومت کو مغربی بارڈر پر ابھرنے والے اس نئے چیلنج کا احساس اور ادراک ہے؟۔ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم اور ان کے وزیر خارجہ میں ایسے نازک اور پیچیدہ مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)