23 جنوری ، 2020
اگر آپ کو ڈیڑھ ہفتے یا ڈیڑھ مہینے کے لئے جیل میں ڈال دیا جائے، آپ پر دو تین مقدمے قائم کرکے میڈیا کو بتایا جائے کہ آپ جیل میں روتے ہیں، گڑگڑاتے ہیں اور معافیاں مانگتے ہیں اور بہت جلد آپ سے ڈیڑھ دو ارب روپے برآمد ہو جائیں گے تو آپ کے اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب پر کیا گزرے گی؟
پھر ایک دن جیل میں آپ کو کہیں سے دو تین دن پرانا اخبار مل جائے اور اُس میں انتہائی باخبر اور حد سے زیادہ قابلِ اعتماد ذرائع کے حوالے سے یہ خبر موجود ہو کہ آپ وعدہ معاف گواہ بننے پر راضی ہو گئے ہیں تو اِس ملک کے نظامِ انصاف اور تحقیقاتی اداروں کے بارے میں آپ کیا سوچیں گے؟
ہو سکتا ہے کہ آپ کچھ سوچنے کے قابل ہی نہ رہیں کیونکہ کئی دفعہ جسمانی تشدد آپ کے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیتیں ختم نہیں کرتا لیکن ذہنی تشدد آپ کی فکر اور روح کو اتنا گھائل کر دیتا ہے کہ وہ نیم مردہ ہو جاتی ہے۔ آگے چلئے۔
خدانخواستہ یہ سب آپ کے ساتھ ڈیڑھ مہینے نہیں بلکہ ڈیڑھ سال تک ہوتا رہے۔ نہ کسی عدالت میں آپ پر کوئی الزام ثابت ہو، نہ آپ وعدہ معاف گواہ بنیں اور بس جیل میں پڑے رہیں تو کیا آپ کے ساتھ ساتھ آپ کا پورا خاندان بھی مسلسل ذہنی اذیت کا شکار نہیں رہے گا؟ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں یہ سوالات اٹھانے کی جسارت کیوں کر رہا ہوں۔
جی ہاں! یہ سب دو وزرائے اعظم کے ساتھ بطور پرنسپل سیکرٹری کام کرنے والے فواد حسن فواد کے ساتھ ہو چکا ہے۔ وہ جولائی 2018کے انتخابات سے دو ہفتے قبل گرفتار ہوئے تو نیب لاہور کے ڈی جی نے اُن کے بارے میں کہا کہ وہ تو روتے اور گڑگڑاتے ہیں۔
نیب نے میڈیا میں اپنے ہرکاروں کے ذریعہ یہ جھوٹی خبریں لگوائیں کہ فواد حسن فواد بہت جلد وعدہ معاف گواہ بن جائیں گے لیکن ڈیڑھ سال تک فواد حسن فواد کو جیل میں قید رکھا گیا اور کوئی ثبوت نہ ملنے پر 21جنوری کو لاہور ہائیکورٹ نے اُنہیں ضمانت پر رہا کر دیا۔
فواد حسن فواد پر ڈیڑھ سال کی قید کے باوجود کوئی الزام ثابت نہ ہونا نیب کے لئے لمحۂ فکریہ نہیں بلکہ ایک طمانچہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ طمانچے کا لفظ ذرا سخت ہو تو یہ سمجھ لیجئے کہ فواد حسن فواد کی رہائی نیب کے منہ پر جوتا ہے۔ اگر یہ بھی سخت ہے تو یہ سمجھ لیجئے کہ فواد حسن فواد کی رہائی نے احتسابی نظام کا منہ کالا کر دیا ہے۔
آپ کچھ بھی کہہ لیں لیکن فواد حسن فواد کی زندگی کے یہ ڈیڑھ سال اب کبھی واپس نہیں آ سکتے اور اُن کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ رسوا فواد نہیں ، احتساب ہو گیا۔
ہو سکتا ہے کہ آپ یہ سمجھیں کہ فواد حسن فواد میرے بہت قریبی دوست تھے اور میں اُن کی رہائی پر بہت خوش ہوں۔ میں نے اُن کی رہائی پر اللہ کا شکر ضرور ادا کیا ہے لیکن وہ میرے قریبی دوست نہیں تھے۔
بطور ایک صحافی میں اُن کو دور دور سے کئی سال سے جانتا تھا لیکن جب وہ وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری بنے تو کچھ مشترکہ دوستوں کے توسط سے اُن کے ساتھ کچھ ملاقاتیں ہوئیں۔
بلوچستان کے اکثر سیاستدان ان کا ذکر ہمیشہ اچھے الفاظ میں کرتے کیونکہ وہ بلوچستان میں بھی فرائض سرانجام دے چکے تھے البتہ پنجاب کے سیاستدانوں کی رائے ملی جلی تھی شاید اُس کی وجہ یہ تھی کہ اُنہیں شریف برادران کے قریب سمجھا جاتا تھا۔
میرے لئے مظلوم بلوچوں کی گواہی زیادہ معتبر تھی لہٰذا میں خاموشی سے اُن کی عزت کرنے لگا۔ ایک مرتبہ اُن کے گھر کشمیری کھانے سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد وہ مجھے بہت بُرے لگنے لگے۔ ہوا یہ کہ میڈیا میں بحث شروع ہو گئی کہ اگر کراچی کو رینجرز کے حوالے کیا جا سکتا ہے تو جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں رینجرز کیوں تعینات نہیں ہو سکتی؟
میں نے جنوبی پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کی تجویز کی حمایت کر دی تو ایک دن نواز شریف صاحب نے مجھے وزیراعظم ہائوس بلا لیا۔ وہ کہنے لگے جنوبی پنجاب میں رینجرز کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے اتفاق نہیں کیا تو اُنہوں نے فواد صاحب کو بلا لیا اور فواد صاحب نقشوں کی مدد سے وزیراعظم کے موقف کی حمایت کرنے لگے۔
اُس دن سے مجھے بہت بُرے لگنے لگے لیکن مجھے اُن کی دیانت داری پر کوئی شک نہ تھا۔ پھر پتا چلا کہ کچھ اہم عہدوں پر ہونے والی تعیناتیوں میں بھی اُن کے مشوروں نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اُن کے مشوروں نے کچھ افراد کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیا لیکن نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی۔
نواز شریف کے بعد وہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے پرنسپل سیکرٹری رہے اور حکومت ختم ہونے کے بعد کہا جانے لگا کہ اگلے وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے اور فواد صاحب اُن کے بھی پرنسپل سیکرٹری۔
5جولائی 2018کو فواد حسن فواد کو نیب نے گرفتار کیا تو میرا تبصرہ یہ تھا کہ شہباز شریف نے بڑے بھائی کے خلاف بغاوت سے انکار کر دیا اور آئندہ حکومت عمران خان کی ہو گی۔ پھر عمران خان وزیراعظم بن گئے۔
نیب نے عمران خان کے سیاسی مخالفین کے علاوہ فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی کردار کشی کی تمام حدود عبور کر دیں۔
یہ دونوں سرکاری افسران چاہتے تو شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر رہا ہو سکتے تھے لیکن اُنہوں نے اپنا ضمیر بیچنے سے انکار کر دیا۔ گستاخی معاف! فواد حسن فواد نے نواز شریف سے زیادہ ثابت قدمی دکھائی۔ وہ جتنا عرصہ جیل میں رہے اتنا عرصہ ہر دوسرا سرکاری افسر اپنے دفتر میں بیٹھا خود کو جیل میں محبوس سمجھتا تھا۔
جب بھی کسی سرکاری افسر کے پاس کوئی اہم فائل آتی اور وہ اس فائل پر دستخط کرنے لگتا تو اُسے فواد حسن فواد یاد آ جاتا اور وہ فائل پر دستخط کیے بغیر ہی سائڈ ٹیبل پر رکھ دیتا۔ فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی گرفتاری نے پوری بیورو کریسی کو مفلوج کر دیا۔
فواد حسن فواد کی رہائی ایک فرد کی نہیں پوری بیورو کریسی کی رہائی ہے لیکن افسوس کہ اس دوران بہت نقصان ہو چکا۔ پچھلے دنوں مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئے تو اُنہوں نے مجھے فواد حسن فواد کی ایک نظم دی جو اُنہوں نے جیل میں لکھی۔ نظم پڑھئے اور سوچئے کہ اس شخص کو جیل میں بھی اپنا نہیں مظلوم کشمیریوں کا خیال تھا۔ نظم کے کچھ حصے پیش ہیں۔
سنا ہے اب کے برس بھی ہندو نواز جنتا
گھروں کے باہر نئی لکیریں
نئے نشاں پھر لگا رہی ہے
یہ فیصلہ پھر سے ہو گیا کہ اس برس بھی
وہ جبر و ظلمت کے دیوتا کو
میری زمین کے جواں لہو کا خراج دیں گے
مگر یہ کیا ہے
کہ اک طرف تو چنار وادی کے ہر نگر میں
لہو کی خوشبو رچی بسی ہے
مگر فضائیں جو ان جذبوں سے اور سوچوں سے معتبر ہیں
یہ کس قبیلے کے لوگ ہیں جو
خود اپنے لہو کی حدت سے جی رہے ہیں
جو خالی ہاتھوں سے لڑ رہے ہیں وہ سرخرو ہیں
مگر جو ان پر گِدھوں کی مانند جھپٹ رہے ہیں
وہ خوف کے اک حصار میں ہیں
جہاں سے کوئی نہ لوٹ پائے
وہ ایک ایسے غبار میں ہیں