24 جنوری ، 2020
گزشتہ روز میں راولپنڈی تھا، پشاور روڈ سے مری روڈ پر مڑا اور پھر فیض آباد سے ہوتے ہوئے اسلام آباد کے ڈی چوک پر آگیا۔ وہاں سے قومی اسمبلی کی طرف چلا گیا۔ میں میٹرو لائن کے ساتھ چلتا ہوا اسمبلی میں پہنچا تھا۔ اسمبلی میں بھی کسی سے میٹرو کے مسائل سننا پڑے۔ میٹرو کی نئی لائن جو ائیرپورٹ تک جارہی ہے ابھی تک مکمل نہیں ہوسکی جو میٹرو 16 ارب روپے سے 2017 میں مکمل ہونا تھی۔
میں رات کو اسلام آباد سے واپس لاہور جی ٹی روڈ سے آیا۔ شاہدرہ سے لاہور میں داخل ہوا۔ میٹرو کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا اپنی رہائش گاہ تک پہنچا۔ میز پر پشاور میٹرو پر ایک تفصیلی فیچر مطالعہ کے لئے میرا منتظر تھا۔ میں سوچنے لگا کہ منصور آفاق تم نے آدھی سے زیادہ دنیا دیکھی ہے۔ کسی ایک بس کے لئے ایسی سڑکیں کہیں نہیں دیکھیں۔ یہ پاکستان چکر میں کیا چلایا گیا ہے دنیا میں ہر جگہ ہر روڈ پر ایک بس لائن ہوتی ہے۔ اس پر بس چلتی ہے یعنی سڑک کی ایک لائن بس کے لئے مختص کر لی جاتی ہے۔ یہ جو مختلف میٹروز پر پاکستان میں اربوں کھربوں لگا دیے گئے ہیں۔
دنیا نے ایسی میٹروز کی ضرورت کو کیوں محسوس نہیں کیا۔ غور کرنے پر سمجھ میں بات آئی کہ جہاں ٹرین چلائی گئی وہاں علیحدہ ٹریک ضرور بچھایا گیا مگر بس کےلئے علیحدہ ٹریک کی کوئی ضرورت کسی ملک نے محسوس ہی نہیں کی۔ میں نے اپنے ہمسفر کے سامنے یہ بات رکھی تو اس نے کہا یہ پاکستان ہے۔ یہاں قانون کا احترام کوئی نہیں کرتا۔ ترقی یافتہ دنیا میں جس لائن کو بس لائن قرار دے دیا جاتا ہے۔ وہاں پھر کوئی گاڑی نہیں جاتی مگر ہم پاکستانی کہاں رکنے والے ہیں۔ سو اسی خوف سے علیحدہ سٹرکیں بنائی گئی ہیں۔ میں نے کہا میں یہ بات نہیں مانتا۔ ہم موٹروے کا کامیاب تجربہ کرچکے ہیں وہاں پاکستانی پوری طرح قانون کا احترام کرتے ہیں۔
جواباً کہا گیا صرف اس لئے کہ جگہ جگہ کیمرے ہوتے ہیں، چالان کئے جاتے ہیں۔ میں نے کچھ دیر سوچا اور کہا کہ اگر فیروز پور روڈ سے شاہدرہ تک ایک سڑک کی لائن کو بس لائن قرار دے دیا جاتا اور اس کے اوپر کیمرے لگا دیے جاتے۔ طے شدہ بسوں کے علاوہ جو بھی گاڑی اس لائن پر آتی اس کے گھر میں چالان پہنچ جاتا تو کتنے دن اس سڑک پر قانون کی پاسداری نہ ہوتی۔ یہی دو چار ہفتے۔ ان کیمروں پر کتنا خرچ آ جاتا۔ ان میٹروز سے کئی ہزار گنا کم۔
میرے ہم سفر نے میری توجہ ’’اورنج ٹرین‘‘کی طرف دلائی کہ اس کی تو تعریف کردو۔ میں نے کہا بےشک ٹرین کے لئے ایک علیحدہ ٹریک کی ضرورت ہوتی ہے مگر دنیا میں زیادہ تر شہروں کے اندر چلنے والی ٹرینیں یا تو انڈر گرائونڈ ہیں یا پھر ان کے ٹریک سڑکوں کے اوپر بچھائے گئے ہیں اور انہیں ٹرام کہا گیا ہے لیکن اس کے باوجود میں اورنج ٹرین کے منصوبے کو برا نہیں سمجھتا۔
مجھے توقع ہے کہ اس سے لاہور کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگامگر اب اسے جلد سے جلد شروع ہو جانا چاہئے۔ دوسرا یہ جتنے میٹرو ٹریک بنائی گئی ہیں انہیں تیز رفتار گاڑیوں کےلئے کھول دینا چاہئے۔ یعنی کاروں وغیرہ کےلئے۔ ایک کار جس نے فیروز پور روڈ سے میٹرو ٹریک پر جانا ہے اور شاہدرہ جا کر اترنا ہے اسے اگر ایک یا دو سو روپے ٹول ٹیکس بھی دینا پڑے گا تو وہ خوشی سے دے گا کیونکہ ایک گھنٹے کا سفر اس نے پندرہ منٹ میں کر لینا ہے۔ یوں یہ جو اربوں روپے ضائع کیے گئے ہیں ان کی واپسی بھی شروع ہو سکتی ہے۔
دل نہیں مانتا مگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ میٹرو صرف کرپشن کے چکر میں وجود میں آئی ہیں مگر کرپشن کے معاملے میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے آج عجیب رپورٹ دی ہے کہ پاکستان میں کرپشن 2018 سے2019میں زیادہ ہوئی ہے۔ یہ بہت خوفناک بات ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی تمام تر توجہ پچھلے ڈیڑھ سال کرپشن اور کرپشن سے بنائی گئی رقم کی واپسی پر مرتکز رہی ہےمگر کرپشن میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔عمران خان کو فوری طور پر اِس کا نوٹس لینا چاہئے۔
پی ٹی آئی پاکستان کی وہ واحد پارٹی ہے جس کا ہمیشہ سے یہی نعرہ رہا ہے کہ ’’کرپشن سے پاک پاکستان‘‘ اور اس وقت اُسی پارٹی کی حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے تو کبھی کرپشن کے خاتمے کا نعرہ ہی نہیں لگایا۔ لگتا ہے اگر نون لیگ اور پیپلزپارٹی نےکئی معاملات میں پی ٹی آئی کی پالیسی اپنا لی ہے تو پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی کچھ لوگ انہی پارٹیوں کے نقشِ قدم پر چلنے لگے ہیں۔
اس وقت صرف ایک شاہد خاقان عباسی اکیلے ایسے فرد کے طور پر سامنے آئے ہیں جنہوں نے نواز شریف اور شہباز شریف کی موجودہ پالیسیوں سے انحراف کا اعلان کیا ہوا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ ن لیگ کے اندر سے بھی شاید کوئی پارٹی اٹھنے والی ہے جس کا یہی نعرہ ہوگا ’’کرپشن سے پاک پاکستان ‘‘۔
عام خیال یہی پایا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت آنے کے بعد کرپشن کے ریٹس بڑھ گئے ہیں۔اگرچہ عمران خان نے چند دن پہلے کہا ہے ’’حکومت کرپشن کے خلاف کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی، ملکی معیشت کی تباہی کے ذمہ داروں کا تعین ضروری ہے، وائٹ کالر جرائم کے خلاف اداروں کی استعداد کو مزید بہتر بنایا جائے گا‘‘ مگر ابھی تک مجموعی طور پر نتائج بہتر نہیں آئے۔ بہتر نتائج جلد سے جلد آنے چاہئیں کہیں وقت ہاتھ سےنکل نہ جائے۔