عمران خان بی آر ٹی کا افتتاح کر سکیں گے؟

فوٹو: فائل

خیبر پختونخوا حکومت نے طویل وقفے کے بعد بی آرٹی پشاور کا افتتاح کرنے کے لیے نئی ڈیڈلائن دیدی ہے اور بتایا گیا ہے کہ جون 2020کو پشاور بس ریپڈ منصوبے کا فیتہ کاٹنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کو زحمت دی جائے گی۔ اب تک اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 9 بار تاریخ دی جا چکی ہے۔

سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک بتایا کرتے تھے کہ بی آر ٹی منصوبہ 19اکتوبر 2017کو مکمل ہو جائے گا، پھر کہا گیا کہ 2018کے عام انتخابات سے پہلے بسیں چلنا شروع ہو جائیں گی۔

وزیراعلیٰ محمود خان کی سربراہی میں بننے والی نئی صوبائی حکومت نے 23 مارچ 2019 کو بی آرٹی منصوبے کا افتتاح کرنے کا اعلان کیا تو میں نے ٹھوس وجوہات اور عوامل کا ذکر کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہو سکے گا اور جب شعبدہ بازی کی یہ کوشش ناکام ہو گئی تو حکومت نے چپ سادھ لی اور منصوبے کی تکمیل کے لیے کسی نئی تاریخ کا اعلان کرنے سے گریز کیا مگر اب کم وبیش ایک سال بعد ٹرانسپورٹ کے صوبائی وزیر نے نئی ڈیڈ لائن دی ہے۔

 زمینی حقائق کے پیش نظر یہ تاریخ بھی حتمی قرار نہیں دی جا سکتی، 30 جون 2020 تک تحریک انصاف کی حکومت برقرار رہی اور بی آر ٹی کا فیتہ کاٹ دیا گیا تو بھی یہ منصوبہ نامکمل اور اُدھورا ہی رہے گا اور اے ڈی بی کی دی گئی تاریخ یعنی 30 جون 2021 سے پہلے مکمل نہیں ہو سکتا۔

بی آر ٹی پشاور منصوبے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، سول ورک اور آپریشنل ورک، سول ورک مزید دو حصوں پر مبنی ہے۔

پہلا حصہ روٹ کی تعمیر سے متعلق ہے جسے ریچ ون، ٹو اور تھری کہا گیا ہے جبکہ دوسرا حصہ لاٹ ون، ٹو اور تھری میں بس ڈپو کی تعمیر، پارکنگ پلازہ اور بائیسکل لین سے متعلق ہے۔

پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اے ڈی بی کو جو آخری رپورٹ بھیجی ہے اس کے مطابق ریچ ون، ٹو اور تھری کا سول ورک اب تک 100فیصد مکمل ہونا چاہئے تھا لیکن اب تک ریچ ون پر 13 فیصد، ریچ ٹو پر 21 فیصد جبکہ ریچ تھری پر 16فیصد کام نامکمل ہے۔

حیات آباد ڈپو کا 70فیصد تعمیراتی کام ادھورا ہے، چمکنی بس ڈپو پر 38 فیصد کام باقی ہے ڈبگری اسٹیجنگ فیسلٹی کا 34 فیصد کام رہتا ہے۔ تعمیراتی کام مکمل ہونے کے بعد جب پی ڈی اے کی طرف سے یہ منصوبہ ٹرانس پشاور کمپنی کے حوالے کردیا جائے گا جو اس منصوبے کے آپریشنل معاملات کی ذمہ دار ہے تو اسے کم از کم دو سے تین ماہ مزید درکار ہوں گے۔

اس دوران بسوں کو چارجنگ کی سہولت دینے کے لیے پوائنٹس لگائے جائیں گے، واشنگ پلانٹس لگیں گے، ای ٹکٹنگ کے حوالے سے سوفٹ ویئر لگایا جائے گا تب کہیں جا کر فل ڈریس ریہرسل ہو گی اور پھر بسیں چلائی جا سکیں گی۔

پارکنگ پلازہ کی تعمیر کب مکمل ہوگی اور بائیسکل کے لیے الگ لین کب اور کیسے بنے گی، ابھی تک اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا۔

ٹرانس پشاور کمپنی نے وہیکل آپریٹنگ کمپنی جس نے بسیں چلانے کے لیے ڈرائیور اور دیگر عملہ مہیا کرنا ہے، اس کا انتخاب کر لیا ہے۔

انٹیلی جنس ٹرانسپورٹ سسٹم جس کے تحت ٹکٹ اور آئی ٹی سے متعلقہ امور آتے ہیں، اس کے لیے وینڈر چُن لیا گیا ہے۔ بسوں کی سپلائی اور ان کی مینٹی ننس کا ٹھیکا اسی چینی کمپنی کو دیدیا گیا ہے جس سے بسیں خریدی گئی ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ان بسوں کے لیے جو ڈپو تعمیر کیے جانا تھے وہ ابھی تک مکمل نہیں ہو سکے اور یہ بسیں گزشتہ ڈیڑھ برس سے حیات آباد میں کھلے آسمان تلے خراب ہو رہی ہیں۔

ٹرانس پشاور کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ بسیں دھوپ، بارش اور اس نوعیت کے دیگر موسمی حالات کو جھیلنے کی استطاعت رکھتی ہیں اس لیے ان کے خراب ہونے کا کوئی امکان نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اپنی ذاتی گاڑی کو اس طرح دھوپ میں گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ سکتا ہے؟

ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بی آر ٹی پشاور کے لیے خریدی گئی جدید ترین اور قیمتی بسیں وارنٹی کلیم پر لی گئی ہیں، نہ صرف ان کے اسپیئر پارٹس کی وارنٹی دو سال میں کلیم کی جا سکتی ہے بلکہ ہائبرڈ بیٹریاں جو سب سے مہنگی ہوتی ہیں ان کی بھی 12سال کی وارنٹی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب یہ بسیں سڑک پر آئیں گی تو ان کے اسپیئر پارٹس کلیم کرنے کی مدت ختم ہو چکی ہوگی۔ اسی طرح ہائبرڈ بیٹریوں کی وارنٹی بھی 12سال سے گھٹ کر 9سال رہ گئی ہوگی۔

بی آر ٹی منصوبے میں منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث بار بار جو تبدیلیاں کی گئیں ان سے نہ صرف منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا بلکہ منصو بے کی لاگت بھی بڑھ گئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے گزشتہ برس 14نومبر کو دیے گئے فیصلے میں ایف آئی اے کو حکم دیا کہ بی آر ٹی پشاور منصوبے میں بےضابطگیوں اور بےقاعدگیوں کی تحقیقات کرکے 45 دن میں رپورٹ دی جائے کہ اس منصوبے کی لاگت بڑھنے کا ذمہ دار کون ہے اور اگر کہیں کوئی مالی خوردبرد ہوئی تو پیسہ کہاں گیا۔

ایف آئی اے نے خاصے پس و پیش کے بعد نیم دلی سے انکوائری کا آغاز تو کیا مگر اب تک محض چند متعلقہ افسروں کے بیانات ہی ریکارڈ کئے جا سکے ہیں اور توقع ہے کہ پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرکے مزید وقت لینے کی استدعا کی جائے گی۔

بی آر ٹی پشاور کو دنیا کے سب سے مہنگے مواصلاتی منصوبے کا اعزاز حاصل ہے۔

آپ ایشیائی ترقیاتی بینک کی ویب سائٹ پردستیاب مختلف بی آر ٹی منصوبوں کے پرکیورمنٹ پلان دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے احمد آباد بی آرٹی منصوبے کی فی کلومیٹر لاگت 2.4ملین ڈالر ہے۔

چین کے Dalian ریپڈ بس منصوبے پر فی کلومیٹر 2.6ملین ڈالر خرچ ہوئے مگر پشاور بی آر ٹی منصوبے کی فی کلومیٹر لاگت 22ملین ڈالر ہے۔

نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ جس طرح شہباز شریف اورنج ٹرین کا افتتاح نہیں کر پائے، اسی طرح عمران خان کو بی آر ٹی پشاور کا فیتہ کاٹنے کی مہلت نہیں۔

مزید خبریں :