20 نومبر ، 2019
پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے میں گذشتہ 6 ماہ کے دوران صرف 6 فیصد کام ہوا کام بھی غیر معیاری ہونے کا انکشاف ہو ا ہے جس پر صوبائی حکومت نے بی آر ٹی پشاورکا ایشیائی ترقیاتی بینک ( اے ڈی بی) سے فرانزک آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا (کے پی) کی زیر صدارت اجلاس میں آڈٹ کا فیصلہ منصوبے میں تاخیر اور غیر تسلی بخش کام کی وجہ سے کیا گیا۔
دستاویز کے مطابق اے ڈی بی ذیلی ٹھیکیداروں کے ذریعے بی آر ٹی کا کام کرانے سے متعلق معلوم کرے گا اور دوسرے ٹھیکیداروں سے کام کرانے کی صورت میں قانونی کارروائی تجویز کرے گا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک یہ بھی طے کرے گا کہ کنٹریکٹر، کنسلٹنٹ، انجینیئر اورپشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) میں سے غلطی کس کی ہے اور ذمہ داروں کا تعین کرکے حکومت کو آگاہ کیا جائے گا۔
اجلاس میں کنسلٹنٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ ٹھیکیدار 6 ماہ کے لیے دیے گئے متفقہ اہداف حاصل نہیں کرسکا جب کہ ٹھیکیدار کنسلٹنٹ اور پی ڈی اے کے احکامات پر بھی عمل نہیں کررہا۔ انجینیئرز کے مطابق بی آر ٹی منصوبے پر کام مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں اور دیگر ٹھیکیداروں کو کام دینے سے منصوبہ نہ صرف تاخیر کا شکار ہوا بلکہ معیار کے مسائل بھی پیدا ہوئے۔
کنٹریکٹر کے مطابق کنسلٹنٹ وقت پر فیصلے اور منظوری نہیں دیتے اور نہ ہی رہنمائی کے لیے دستیاب ہوتے ہیں۔
ریچ 2 میں سائیکل ٹریک کی منظوری نہیں دی گئی، ریچ تھری میں 14 بس اسٹیشنوں پر اشاروں کی منظوری کا انتظار ہے جب کہ ادائیگیوں میں بھی تاخیر کی جا رہی ہے۔
منصوبے کے تعمیراتی کام میں سست رفتاری پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے عدم اطمینان اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 6 ماہ کے دوران بی آر ٹی پر ایک ماہ میں ایک فیصد کام ہوا جس کے باعث منصوبہ مقررہ مدت تک مکمل نہیں ہو پائے گا۔
دوسری جانب وزیراطلاعات خیبرپختونخوا شوکت یوسف زئی نے دعویٰ کیا ہے کہ بی آر ٹی پر کام بہت تیزی سے ہو رہا ہے، کوشش ہے کہ منصوبہ اسی سال مکمل ہو۔
شوکت یوسف زئی کے مطابق بی آر ٹی پشاور کے لیے ایک تحفہ ہے، اس بات کو بلا ضرورت اچھالا گیا کہ اس پر بہت بڑی لاگت آئی ہے، منصوبہ کی لاگت 3 ارب روپے بڑھی لیکن تین سے چار ارب روپے کی بچت بھی کی ہے، بچت اس میں ایڈجسٹ ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ پشاور میں ٹرانسپورٹ کا منصوبہ بی آر ٹی تحریک انصاف کے گزشتہ دورِ حکومت میں سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے دور میں شروع ہوا جو کئی تاریخوں کے باوجود تاحال مکمل نہیں ہوسکا۔
اکتوبر 2017 میں شروع ہونے والے اس منصوبے کو کے پی حکومت نے چھ ماہ کے اندر مکمل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جب کہ منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 49 ارب روپے لگایا گیا جو اب 66 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
گزشتہ دنوں صوبائی انسپکشن ٹیم نے اپنی رپورٹ میں بی آر ٹی منصوبے میں کئی خامیوں کی نشاندہی کی تھی، رپورٹ میں کہا گیاکہ بی آر ٹی منصوبہ مناسب منصوبہ بندی کے بغیر شروع کیا گیا، ڈیزائن میں تبدیلی کے باعث منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہوا اور عوام کے پیسے کو بی آر ٹی پر ضائع کیا گیا۔
صوبائی انسپکشن ٹیم کی رپورٹ کے مطابق ناقص منصوبہ بندی اور ڈیزائن پروجیکٹ کے کام میں غفلت برتی گئی اور فیزیبلٹی اسٹڈی میں خامیوں کے باعث منصوبے میں تبدیلیاں کی گئیں۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قرضوں کی تحقیقات کے لیے بنایا گیا انکوائری کمیشن بھی بی آرٹی پشار منصوبے کی تحقیقات کررہا ہے جب کہ پشاور ہائیکورٹ میں اس حوالے سے ایک مقدمہ بھی زیر سماعت ہے۔