پاکستان
Time 24 جنوری ، 2020

زینب الرٹ بل میں پھانسی کی سزا تھی لیکن بعض پارٹیوں نے مخالفت کی، اسد عمر

 وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات اسد عمر نے کہا ہے کہ حکومت کے مجوزہ زینب الرٹ بل میں مجرم کے لیے پھانسی کی سزا رکھی گئی تھی جس کی بعض سیاسی جماعتوں نے مخالفت کی تاہم وہ خود اس سزا کی حمایت کرتے ہیں۔

قصور میں زیادتی کا شکار ہونے والی بچی زینب کی دوسری برسی کے موقع پر وفاقی وزیر اسد عمر ان کے گھر پہنچے اور اہل خانہ سے ملاقات کی۔ 

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ حکومت کے مجوزہ زینب الرٹ بل میں پھانسی کی سزا تھی تاہم بعض پارٹیوں نے پھانسی کی سزا کی مخالفت کی لیکن وہ ایسے کیسز میں پھانسی کی سزا کی حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی نظام کی اس سے بڑھ کر اور کوئی خوش قسمتی نہیں ہو گی کہ معصوم بچوں کے لیے یہ بل پاس ہوا، وفاق کے بعد تمام صوبوں میں بھی زینب الرٹ بل منظور کرائیں گے، تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا تاکہ کمسن بچوں سے زیادتی کے واقعات رک سکیں، عدلیہ، پولیس اور پورا پاکستان اگر اس پر متفق ہو جائے تو ایسے واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ عوام اور پولیس کے درمیان اعتماد کا رشتہ نہیں، ایسا لگتا ہے ایک دوسرے کے حریف ہیں لیکن یقین ہے وزیراعظم عمران خان پولیس بہتر کر کے دکھائیں گے، پولیس نظام کا ٹیسٹ ہے کہ غریب اوراس کا بچہ محفوظ ہو۔

انہوں نے کہا کہ آج خیبر پختونخوا کے نئے آئی جی سے ملاقات ہوئی ہے، ان کی ابتدائی پرفارمنس پر وزیراعظم عمران خان مطمئن ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن اور حکومت کی ایک دوسرے پر تنقید جمہوریت کا حصہ ہے، ہمیں ریاست کی ضرورت اس لیے ہے کہ کمزورکی حفاظت کی جائے۔ 

خیال رہے کہ 10 جنوری 2020 کو قومی اسمبلی نے قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بچی کے نام سے پیش کئے گئے زینب الرٹ بل کو متفقہ طور پر منظور کیا۔

2018 کے آغاز میں پنجاب کے ضلع قصور سے اغواء کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔

17 اکتوبر 2018 کو زینب کو قتل کرنے والے مجرم عمران کو پھانسی دے دی گئی تھی۔

مزید خبریں :