25 جنوری ، 2020
مجھے اس بات کا بھرپور ادراک ہے کہ اس کالم کا عنوان ہر لحاظ سے تحریر کی شائستگی کو پامال کرتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ الفاظ ہمارے وزیراعظم کے اس خطبہ عالیہ سے چرائے گئے ہیں جو عزت مآب جناب عمران خان نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں کہے ہیں۔اس وجہ سے یہ الفاظ اب میرے نہیں یہ الفاظ اب وہ قومی خزانہ ہیں جو وزیراعظم نے ہمیں تفویض کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر وزیراعظم پاکستان کی تحریک انصاف کی سوشل میڈیا سے کی گئی گفتگو کا جو وڈیو کلپ وائرل ہوا ہے۔اس میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہم خواتین کا کتنا احترام کرنا چاہتے ہیں؟ ہم کون سی خواتین کی عزت کرنا چاہتے ہیں اور کون ایسی ہیں جو لائقِ توہین ہیں۔
کون باعثِ عزت ہیں اور کون سی باعثِ دشنام ہیں۔ وزیراعظم نے واضح بات کہی کہ ان کی اہلیہ چونکہ سیاسی امور میں دخل نہیں دیتیں اس لئے ان کا تحفظ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا پر فرض ہے۔ اس بات سے مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ اس کے علاوہ جو خواتین سیاست میں حصہ لیتی ہیں انکے کردار کے چیتھڑے اڑائے جا سکتے ہیں، ان کو گالی دی جا سکتی ہے، ان کی کردار کشی کی جا سکتی ہے، ان کے بارے میں رنگیلے ٹرینڈ بنائے جا سکتے ہیں اور ان کی تصاویر کو فوٹو شاپ کرکے ان کو بےحرمت کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ وہ اس ملک کی سیاست میں حصہ لینے کی سنگین غلطی کر چکی ہیں اس کی سزا انہیں جھیلنا ہو گی۔ اس کا انہیں خمیازہ بھگتنا ہو گا۔
وزیراعظم پاکستان کو اپنے یہ کلمات گوش گزار کرتے ہوئے شاید یہ یاد نہیں رہا کہ پاکستان کی تاریخ میں بہت مضبوط خواتین سیاسی رہنما گزری ہیں۔جنہوں نے ناصرف طاقتور ترین آمروں کو چیلنج کیا ہے بلکہ اپنی سیاسی بصیرت کا لوہا بھی منوایا ہے۔ فاطمہ جناح سے بات شروع کریں تو ایوب کے مارشل لا کے تاریک دور میں انہوں نے کلمہ حق بلند کیا۔
ایک مطلق العنان حاکم کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ انتخابات میں اس کا بھرپور مقابلہ بھی کیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی انہی چیلنجز کا سامنا رہا۔ ان کے اوپر بھی دشنام کی بارش کی گئی۔ انکو بھی پست اور غیر اخلاقی القابات کا سامنا کرنا پڑا۔ کلثوم نواز مرحومہ بھی اسی وادیٔ دشنام سے گزرتی رہیں۔
مریم نواز کو بھی اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس سب کے باوجود کوئی بھی ان بہادر اور نڈر خواتین کی سیاسی جدوجہد اور بصیرت سے انکار نہیں کر سکتا۔ ان کے سیاسی کارناموں کو فراموش نہیں کر سکتا۔ ان کے حوصلے کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اگر آپ کو یاد ہو کہ اسمبلی میں بینظیر بھٹو کو کن الفاظ سے پکارا گیا تھا اور مریم نواز کے منڈی بہائو الدین کے جلسے والے دن پاکستان میں ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ کیا تھا؟ تو آپ کی آنکھیں خود شرم سے جھک جائیں گی۔ یہ حقیقت ہے کہ بینظیر بھٹو کے خلاف دشنام کا آغاز مسلم لیگ ن نے کیا تھا۔
اس وقت بھی اس گالم گلوچ کے فرائض ایک ایسے شخص کے ذمہ تھے جو آج بھی وزیر ہے اور جسے وزیر دشنام کہنا بےجا نہ ہو گا۔
کتنی بدقسمتی ہے اس ملک میں وزارتیں، عہدے اور انعامات اس بنیاد پر بٹتے ہیں کہ آپ کسی کو کتنی گالی دے سکتے ہیں۔ آپ کس پر کتنا کیچڑ اچھال سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی اس حکومت نے تو گالم گلوچ کے فن کو بام عروج پر پہنچا دیا ہے۔
صوبائی وزرا ہوں یا وفاقی، ان کی اہلیت یہی ہے کہ وہ کتنا بہتان لگا سکتے ہیں۔ کتنا کیچڑ اچھال سکتے ہیں۔ کتنی غلیظ گالی سرعام دے سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم کی جانب سے سیاسی خواتین کی بے حرمتی اور غیر سیاسی خواتین کی حرمت کی جو تلقین کی گئی ہے وہ اسلئےبھی حیران کن کہ تحریک انصاف کے طرف داروں میں ایک بڑی تعداد ان لبرل خواتین کی ہےجو سیاسی شعور رکھتی ہیں۔ جو سیاست میں اپنا نام بنانا چاہتی ہیں۔
جو اس ملک کی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔ مجھے ادراک ہے وزیر اعظم کے اس بیان سے اپوزیشن جماعتوں کی خواتین رہنمائوں پر کیا گزری ہو گی لیکن میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تحریک انصاف کی طرف دار خواتین اب کس طرح اپنے سیاسی شعور کے ساتھ اپنی عزت اور وقارکا دفاع کر سکیں گی کیونکہ وزیراعظم نے بات واضح کر دی ہے کہ جو خاتون سیاست میں ہے وہ لائق تعزیر ہے اور جو گھر بیٹھی ہے وہ باعث ِ حرمت ہے۔
اسی مبینہ وڈیو میں وزیراعظم پاکستان نے رانا ثناء اللّٰہ کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا کی یہ چند لوگ گٹر سے اٹھے ہوئے لوگ ہیں۔ اس سے مراد انکی اگر ایسے سیاسی کارکن ہیں جنہوں نے آمریت کے ہر دور کا مقابلہ کیا، ہر ظلم کو سہا، جسمانی اذیتیں برداشت کیں اور پھر بھی جمہوریت پر سمجھوتہ نہ کیا تو ایسے کارکن واقعی ملک میں چند ایک ہی ہوں گے۔ ایسے لوگ گٹر سے نکلے ہوئے نہیں اس ملک کے آئین سے وفاداری میں گندھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔
ان کو گٹر سے اٹھے لوگ کہنا مناسب نہیں انہیں تو سیاسی جماعتوں کو تاج کی طرح سر پر سجا کررکھنا چاہئے۔ لیکن اگر قبیح جملے سے مراد رانا ثناء اللّٰہ کی شخصیت نہیں بلکہ ایسے دیسی لوگ تھے جو باہر کے ممالک کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکے، جو شلوار قمیص پہنتے ہیں جو درست انگریزی نہیں بول سکتے جو کبھی بھی ملک سے باہر نہیں گئے تو یقین مانیے اس ملک کی بائیس کروڑ آبادی میں سے کم از کم اکیس اکروڑ لوگ ایسے ہی ہیں۔
انہیں میں سے بہت سے لوگوں نے جناب وزیراعظم آپ کو منتخب کیا ہے۔ انہی میں سے بہت سے لوگوں نے آپ کو ووٹ دیا ہے تو میری طرف سے مبارک باد قبول کیجئے، آپ کی عطا کی ہوئی تعریف کے مطابق کیا آپ ایسے لوگوں کے وزیراعظم ہیں؟