Time 23 جنوری ، 2020
پاکستان

عمران فوراً اپنے پارٹی کارکنوں سے رجوع کریں

اس وقت عمران خان جن مشکلات کا شکار ہیں ان کے اعصاب کی جو آزمائش ہورہی ہے وہ بھی پارٹی کی تنظیم سے لاپرواہی کی وجہ سے ہے—فوٹو فائل

پاکستان کی تاریخ میں ایسے موڑ پہلے بھی کئی بار آئے ہیں جب یہ کہا گیا کہ

جی کا جانا ٹھہر گیا ہے

صبح گیا یا شام گیا

نوابزادہ نصراللہ زندہ ہوتے تو وہ ساری پارٹیوں کو اکٹھا کررہے ہوتے اور ہر صبح یہ جملہ دہرا رہے ہوتے’پاکستان اور عمران خان ساتھ نہیں چل سکتے‘۔ 

اُن دنوں یہ ہوتا تھا کہ سیاسی قیادت اور پاور بروکرز ایک صفحے پر نہیں رہتے تھے۔ سادہ لباسوں والے لکھم ہاؤسوں، جتوئی ہاؤسوں، 70کلفٹن، ماڈل ٹاؤن، دارُالعلوم حقانیہ، باچا خان سینٹر کی چائے پی رہے ہوتے تھے مگر اب تو یہ کہا جاتا رہا تھا کہ بنی گالا اور وہ ایک صفحے پر ہیں۔ پھر نجانے ڈور کہاں سے ہلی، پارلیمنٹ نے اپنی اکثریت غیر سیاسی چوکھٹ پر وار دی۔ دو تہائی ووٹ جو صدر کو ملے تھے نہ وزیراعظم کو، اُن کو مل گئے جنہیں منتخب ہونے کی آئینی ضرورت نہیں ہوتی۔

اس کے بعد ایسی ہوا چلی کہ انصاف کے خیمے اکھڑنے لگے۔ وہ جو مل کر عمران خان کو سلیکٹڈ کہتے نہ تھکتے تھے، اِن دنوں سیلیکٹ ہونے کے لیے بےتاب ہیں۔ بالکل اِسی مشق کے لیے بےچین ہیں جس کا الزام وہ عمران خان پر لگاتے تھے کہ اکثریت نہیں تھی۔

کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ملاکر بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا۔ تحریک انصاف جن بیساکھیوں کے سہارے چل رہی تھی اب ان بیساکھیوں سے اس کے مخالفین کو عشق ہو گیا ہے۔

میں تو نصف صدی بلکہ چھ دہائیوں سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ سیاسی اتحاد مستحکم جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہیں۔

سیاسی اتحاد حکومت کو گرانے میں تو کامیاب رہتے ہیں لیکن حکومت کو مستحکم کرنے میں کبھی کارگر نہیں رہتے۔ سیاسی اتحادوں کے پیچھے ہمیشہ کوئی اجنبی مخلوق رہی ہے۔ یحییٰ خان جن کے سر منصفانہ انتخابات کا سہرا باندھا جاتا ہے۔ ان کی کبھی یہ خواہش نہیں تھی کہ کوئی ایک پارٹی اکثریت لے کر آئے۔ ان کا دستِ شفقت تو مختلف پارٹیوں پر تھا۔

یہ سیاسی اور مذہبی لیڈر صدر یحییٰ سے مل کر آتے تھے تو قوم کو نوید دیتے تھے کہ وہ ایک اسلامی آئین مرتب کررہے ہیں۔ اب یہ جو ہلچل مچی ہوئی ہے کس نے کس کو سبز باغ دکھائے ہیں۔ قوم کا تو لگتا ہے جی بھر گیا ہے تبدیلی سے۔ کیا پاور ہائوسوں کا جی بھی بھر گیا ہے۔ اس کی تصدیق ابھی ہونا باقی ہے۔

اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح

کم از کم میرے لیے اسی منظر نامے میں کوئی تعجب یا حیرت نہیں ہے۔ کئی بار یہ تماشے دیکھے ہیں۔ میرا مشاہدہ اور پھر سوچ یہ ہے کہ جمہوریت کی بنیاد شخصیات نہیں، منظم سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں۔ ہم بادشاہوں، شہزادوں، شہزادیوں کے گرویدہ ہیں یا پیروں اور مرشدوں کے۔ سیاسی پارٹیوں کی قوت عوام ہوتے ہیں اور اُن کے سیاسی کارکن۔

جمہوریت کا عدم استحکام اور غیرسیاسی قوتوں کے غلبے کی وجہ بڑی قومی سیاسی پارٹیوں کی تنظیم سے عدم توجہ ہے۔ کسی پارٹی کی تنظیم ملک گیر نہیں ہے۔ اس لیے ہر الیکشن کے بعد کسی نہ کسی علاقائی پارٹی کا سہارا لے کر سادہ اکثریت حاصل کی جاتی ہے۔

چاہے اُن کے نظریات ایک دوسرے سے قطعی طور پر متضاد ہوں۔ اس کی مثال ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق ہیں۔ کراچی میں مقابلہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان تھا۔ ایم کیو ایم کو ختم کرنے کے لیے تحریک انصاف کو اتارا گیا مگر حکومت بنانے کے لیے پھر آگ اور پانی کو اکٹھا کرنے کا تجربہ کیا گیا۔

اب اگر واقعی چہرے بدلنے والے ہیں، پھر کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ملایا جارہا ہے۔ اس کا نتیجہ بھی یہی نکلے گا۔

قومی سیاسی پارٹیوں میں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلز پارٹی شمار کی جا سکتی ہیں لیکن پورے پاکستان میں اب کسی کو بھی ہر علاقے میں یکساں طاقت حاصل نہیں ہے۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) پنجاب میں، پی پی پی سندھ میں، تحریک انصاف کے پی میں اور بلوچستان میں، اِن تینوں میں سے کوئی نہیں ہے۔ اِن تینوں کو بھی قومی سیاسی پارٹیاں نہیں کہا جا سکتا۔

اشتراک صرف حکومت چلانے کے لیے کیا جاتا ہے، ملک چلانے کے لیے نہیں۔ مخلوط حکومت میں شامل ہونے والی پارٹیوں کے ملک کے بارے میں ایک سے نظریات نہیں ہوتے۔ اس لیے ملک نہیں چلتا۔

پاکستان کی تاریخ میں 1969,70,71ایسے سال ہیں جب سیاسی پارٹیوں نے تنظیم کی طرف توجہ دی لیکن بدقسمتی سے وہ بھی ملک گیر نہیں تھی۔ عوامی لیگ نے سارا زور مشرقی پاکستان پر دیا۔

پی پی پی نے صرف سندھ، پنجاب میں کچھ کچھ بلوچستان، سرحد میں۔ اس کے علاوہ پارٹی تنظیم کو سیاسی کارکنوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔ پارٹیاں بدلنے والے ہمیشہ غالب رہے ہیں۔ اب بھی یہی حال ہے اس لیے جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی۔ جمہوریت مستحکم نہیں تو پارلیمنٹ بھی با معنی ہو سکتی ہے اور نہ ہی نتیجہ خیز۔

اس وقت عمران خان جن مشکلات کا شکار ہیں ان کے اعصاب کی جو آزمائش ہورہی ہے۔ وہ بھی پارٹی کی تنظیم سے لاپرواہی کی وجہ سے ہے۔ بیساکھیاں بہت پرانا سہارا ہوگئی ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ عمران خان اپنی پارٹی کے صوبائی کنونشن منعقد کریں۔

اپنے کارکنوں سے اصلی حالات سنیں۔ پھر ایک قومی کنونشن منعقد کریں۔ پارٹی کارکنوں سے رائے لیں کہ اس طرح دبائو میں رہ کر بلیک میل ہوتے حکومت کرتے رہیں اور عوام کی نفرت کا شکار ہوتے رہیں۔

اگلے انتخابات میں فتح کی امید نہ رکھتے ہوئے رُسوا ہوتے رہیں یا اسمبلیاں تحلیل کرکے نئے انتخابات کے لیے میدان میں اُتریں۔ چاروں صوبوں میں پارٹی منظّم کریں۔ سیاسی قوت بنیں۔ سہاروں اور سیلیکٹڈ ہونے کا جوا اتار  پھینکیں۔

مزید خبریں :