عمران خان، پی ٹی آئی اور سازشیں؟

پی ٹی آئی سمیت کئی لوگوں کو جس بات نے حیران کیا ہے وہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے خیبرپختونخوا کے تین وزراء کا موقف سنے بغیر انہیں کابینہ سے نکالنے کا فیصلہ کیا—فوٹو فائل

کیا کچھ اہم وزراء اور حکمران جماعت کے ارکان پارلیمنٹ وزیراعلیٰ کے پی محمود خان کیخلاف کوئی سازش کر رہے تھے یا یہ محض ایک منصوبہ تھا تاکہ وزیراعظم عمران خان کو عاطف خان اور دیگر کیخلاف متنفر کیا جا سکے، جنہیں عموماً صوبے میں پرویز خٹک مخالف گروپ سمجھا جاتا ہے۔ 

پارٹی میں دونوں اطراف کے رہنماؤں سے بات چیت کرنے کے بعد اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ جن لوگوں کو صوبائی کابینہ سے نکال باہر کیا گیا ہے انہوں نے ایک با اثر ریٹائرڈ شخص سے ملاقات کی تھی۔ 

عاطف خان گروپ کیلئے یہ محض ایک عام سی ملاقات کی لیکن پرویز خٹک گروپ کی نظر میں یہ پارٹی قیادت کیخلاف بغاوت کی کوشش تھی۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے دی نیوز کو بتایا کہ انٹیلی جنس بیورو نے بھی وزیراعظم کو عاطف خان گروپ اور با اثر ریٹائرڈ شخصیت کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں بتایا ہے۔ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کے ایک اہم بیوروکریٹک مشیر نے آئی بی کی انٹیلی جنس رپورٹ کے اجراء میں اہم کردار ادا کیا۔تاہم، اس بات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔ 

کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے پرویز خٹک اور ساتھ ہی محمود خان نے رابطہ کیا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ عاطف خان گروپ نہ صرف خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کیخلاف سازش کر رہا ہے بلکہ پنجاب اور مرکز میں بھی پریشانیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بغاوت کے بارے میں یہ کہانی پرویز خٹک گروپ کے حق میں اس طرح بھی گئی کہ ن لیگ کے سینئر رہنما خواجہ آصف کی اسی ریٹائرڈ با اثر شخص کے ساتھ ملاقاتوں کا حوالہ سامنے آیا۔

 اس بات کی تصدیق نہیں ہو پائی کہ کیا یہ سازش ابھی بنائی جا رہی تھی یا اس کا بظاہر عاطف خان گروپ کے ساتھ اس ریٹائرڈ شخص کا کوئی تعلق تھا اور یہ بھی کہ خواجہ آصف کے حوالے سے سامنے آنے والے پہلو کی وجہ سے پرویز خٹک گروپ کیلئے خیبرپختونخوا میں اپنے مخالفین کو چت کرنا آسان ہوگیا۔ عاطف خان گروپ نے اجلاس کو غیر اہم بنا دیا اور اصرار کیا ہے کہ سیاست میں کئی لوگ ریٹائرڈ اور ساتھ ہی حاضر سروس افسران سے ملاقات کرتے رہتے ہیں۔ 

سیاست بشمول پی ٹی آئی میں یہ عام بات ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ماضی میں ایسا کتنی مرتبہ ہوا ہے کہ پارٹی یا کابینہ میں سے کسی کو حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسران سے ملاقات پر نکالا گیا ہے؟ تاہم، پی ٹی آئی سمیت کئی لوگوں کو جس بات نے حیران کیا ہے وہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے خیبرپختونخوا کے تین وزراء کا موقف سنے بغیر انہیں کابینہ سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں خیبرپختونخوا حکومت میں کرپشن اور خراب طرز حکمرانی کے الزامات کا بتایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم سے کچھ مرتبہ عاطف خان اور دیگر وزراء نے رابطہ کیا تھا، جنہیں اب برطرف کیا جا چکا ہے، اور بتایا تھا کہ صوبائی کابینہ کو وزیراعلیٰ کا تحفظ حاصل ہے۔ 

حالیہ ہفتوں کے دوران، ناراض افراد کی تعداد بڑھ کر 15؍ سے 20؍ ہوگئی۔ ان افراد نے حال ہی میں حیات آباد کی رہائش گاہ پر رات کا کھانا کھایا جس کی وجہ سے اسلام آباد میں کئی لوگ پریشان ہوگئے۔ نہ صرف محمود خان نے شکایت کی کہ عاطف خان اور دیگر افراد ان کی حکومت کو پریشان کرنے کیلئے گروپ بندی کر رہے ہیں بلکہ پرویز خٹک نے بھی معاملہ وزیراعظم کے روبرو رکھا۔ 

چونکہ عمران خان جانتے تھے کہ عاطف خان اور شہرام تراکئی ماضی میں ان سے محمود خان کیخلاف رابطہ کر چکے تھے لہٰذا وہ دوسرے فریق کو سنے بغیر ہی ’’سازش‘‘ یا ’’بغاوت‘‘ کی بات پر کوئی فیصلہ کرنے پر آمادہ نظر آئے۔ 

پی ٹی آئی کے ناراض ارکان اسمبلی کا گروپ سامنے آنے کو ’’سازش‘‘ کے نتیجے کے طور پر دیکھا گیا جس کا ممکنہ تعلق خیبر پختونخوا کی ’’سازش‘‘ سے تھا۔ پی ٹی آئی میں کوئی نہیں جانتا کہ کون کیا کر رہا ہے۔ 

اسی دوران ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے حالیہ دورہ لاہور سے ایک دن قبل لاہور کے لارنس گارڈن میں ظہرانے کیلئے مسئلہ حل کرنے والے 20؍ افراد کو مدعو کیا گیا تھا۔ ذرائع نے کہا کہ لارنس گارڈن کے پرسکون ماحول کا مزہ ایسا ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب میں مچی ہوئی سیاسی اتھل پتھل ختم ہوگئی۔

مزید خبریں :