30 جنوری ، 2020
بم دھماکا میرے لئے کوئی نئی چیز نہیں۔ میری نسل کے لوگوں نے ایک ایسے پاکستان میں ہوش سنبھالا جس پر جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی اور اس حکومت نے امریکی ڈالروں سے افغانستان میں جو جہاد شروع کیا اس کا جواب پاکستان کے بازاروں میں بم دھماکوں سے دیا جاتا تھا۔
یہ میری صحافت کے ابتدائی برسوں کی بات ہے، 1988میں لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک بم دھماکا ہوا۔ کرائمز رپورٹر چھٹی پر تھا لہٰذا اس بم دھماکے کی رپورٹنگ میرے ذمے لگائی گئی۔ میں جب موقع پر پہنچا تو انسانی جسم کے لوتھڑے بجلی کے کھمبوں پر لٹکے دیکھ کر مجھے متلی ہونے لگی اور پھر کئی دن تک میں کچھ کھا نہ کر سکا۔
آنے والے برسوں میں پاکستان کے علاوہ افغانستان، عراق، لبنان، شام، فلسطین اور چیچنیا میں اتنے بم دھماکے اور تباہی دیکھی کہ ایسے واقعات معمولاتِ زندگی بن گئے۔ مجھے 2009کی وہ رات بھی یاد ہے جب میں غزہ کے القدس ہوٹل میں سو رہا تھا کہ ایک دھماکے نے ہوٹل کے درودیوار ہلا دیے۔ میں ہڑبڑا کر اٹھا تو ساتھ والے کمرے میں الجزیرہ ٹی وی کے کیمرہ مین نے بتایا کہ اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے ہوٹل کا عقبی حصہ تباہ ہو گیا ہے لہٰذا ہمیں یہ جگہ چھوڑ دینی چاہئے۔ میں نے اطمینان سے جوتے پہنے اور ہوٹل کے تباہ شدہ حصے میں جاکر زخمیوں کی مدد شروع کی تو الجزیرہ کے کیمرہ مین نے کہا کہ پاکستان میں فلسطین سے زیادہ دھماکے ہوتے ہیں اس لئے پاکستانی صحافیوں پر دھماکوں کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔
اللّٰہ کا شکر ہے آج کا پاکستان 2009کے پاکستان سے زیادہ محفوظ ہے لیکن صبح کے اخبارات میں ایک خبر مجھے واپس 2009میں لے گئی ہے۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں غزہ کے القدس ہوٹل میں نہیں بلکہ بیت المقدس میں کھڑا ہوں اور میرے ارد گرد چیخ وپکار ہو رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے پہلو میں کھڑے ہو کر مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کا جو منصوبہ پیش کیا ہے وہ دراصل مشرقِ وسطیٰ کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو ایک نئی جنگ میں دھکیلنے کا منصوبہ ہے۔
ٹرمپ کا یہ منصوبہ دراصل ایک بم دھماکا ہے جس نے میرے ذہن کے درودیوار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرمپ صرف مشرق وسطیٰ کو نہیں بلکہ پاکستان کو بھی دہشت گردی کے اس دور میں واپس لے جانا چاہتا ہے جس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے ٹرمپ کا یہ منصوبہ مسترد کر دیا ہے، اُنہوں نے ایسا کیوں کیا؟
ستم ظریفی دیکھئے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کیلئے دو فریقین میں بات چیت ضروری ہے۔ ایک فریق اسرائیل ہے اور دوسرا فریق فلسطین۔ امریکی صدر ٹرمپ نے فلسطین کی مرضی و منشا معلوم کئے بغیر ان سے کوئی بات چیت کئے بغیر ایک ایسے منصوبے کا اعلان کر دیا ہے جس کا فائدہ صرف اور صرف اسرائیل کو ہے۔ غور کیجئے! فلسطینی اس منصوبے کو مسترد کر رہے ہیں لیکن ٹرمپ کے کچھ وفادار مسلم ممالک اس منصوبے کی حمایت کر رہے ہیں جس کے باعث اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے رکن ممالک میں اختلافات بڑھیں گے۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ اپنے خلاف مواخذے کی تحریک سے توجہ ہٹانے کیلئے ٹرمپ نے پہلے عراق میں ایک ایرانی فوجی افسر پر حملہ کیا اور اب مشرقِ وسطیٰ کا امن برباد کرنے کیلئے ایک ایسے منصوبے کا اعلان کیا ہے جو عام مسلمانوں میں امریکہ کے خلاف منفی جذبات میں مزید ا ضافہ کرے گا۔
ٹرمپ کو صرف اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے، اسے عام امریکیوں کا مفاد عزیز نظر نہیں آتا۔ ٹرمپ اپنے اس نام نہاد امن منصوبے کے اعلان سے بہت پہلے امریکہ کا سفارتخانہ یروشلم منتقل کر چکا ہے جو مسئلہ فلسطین پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ نئے منصوبے کے تحت ناصرف یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا گیا بلکہ دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر غیرقانونی طور پر آباد چار لاکھ سے زائد اسرائیلیوں کو بھی تحفظ دے دیا گیا ہے۔
ٹرمپ کا اعلان سن کر مجھے چند ماہ قبل وزیراعظم عمران خان کے ساتھ صحافیوں کی ایک ملاقات یاد آ گئی جس میں کچھ ساتھی بڑھ چڑھ کر عمران خان کو مشورہ دے رہے تھے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہئے اور عمران خان نفی میں سر ہلاتے رہے۔ جب سے عمران خان وزیراعظم بنے ہیں تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر رہے ہیں۔
بھارت کی طرف سے ثالثی کی اس پیشکش کو مسترد کیا جا چکا ہے لیکن ٹرمپ بار بار اپنی پیشکش دہرا رہے ہیں جس پر پاکستان کا دفترِ خارجہ خاموش ہے۔ اب جبکہ ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے نام پر ایک نئی جنگ شروع کرنے کا منصوبہ پیش کر دیا ہے تو پاکستان کو ٹرمپ کی طرف سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش مسترد کر دینی چاہئے۔
جو شخص فلسطینیوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا وہ کشمیریوں کے ساتھ انصاف کیسے کرے گا؟ ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے نام پر نئی جنگ کے آغاز کا جو منصوبہ پیش کیا ہے وہ ان کے خبطِ عظمت اور تکبر پر مبنی سوچ کی غمازی کرتا ہے اور ایسی سوچ کا حامل شخص افغانستان میں بھی قیامِ امن کے منصوبے پر عملدرآمد کے بجائے دھوکہ دے گا۔ پاکستان نے افغانستان میں قیامِ امن کیلئے امریکہ اور افغان طالبان میں مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے بہت کوششیں کیں لیکن افسوس کہ ٹرمپ کا طرزِ عمل امن دشمنی پر مبنی ہے۔
ٹرمپ فلسطین، عراق، شام، افغانستان سے لیکر پاکستان تک امن پسندوں کے نہیں بلکہ انتہا پسندوں کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے۔ پاکستان میں کچھ ایسے بھی مہربان ہیں جو کہتے ہیں کہ فلسطین کی فکر چھوڑو اپنی فکر کرو۔ ان مہربانوں سے گزارش ہے کہ یہ ناچیز علامہ اقبال ؒ جیسے فلسفی شاعر اور قائداعظم جیسے قانون پسند سیاستدان کا پیروکار ہے یہ دونوں فلسطین کی تقسیم کے خلاف تھے لہٰذا میں اپنے ان بزرگوں کی سوچ سے انحراف نہیں کر سکتا کیونکہ فیض احمد فیض نے بھی مجھے یہی بتایا کہ ؎
جس زمیں پر بھی کُھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطین کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطین برباد
میرے زخموں نے کئے کتنے فلسطین آباد
عالمِ عرب کے شیوخ بیت المقدس پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں لیکن ہم عجمی یہ سمجھوتہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں ایک گناہ گار شاعر ابنِ انشاء نے بتایا ؎
دیکھ بیت المقدس کی پرچھائیاں
اجنبی ہو گئیں جس کی پہنائیاں
آج یروشلم تو جو پامال ہے
روح آزاد کی اس کا کیا حال ہے
جس ٹرمپ نے زور زبردستی سے یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرانے کی کوشش ہے اس ٹرمپ کی کشمیر پر ثالثی ہمیں قبول نہیں اور اس ٹرمپ سے افغانوں کو بھی ہوشیار رہنا چاہئے کیونکہ وہ صرف ہمارے ساتھ نہیں امریکیوں کے ساتھ بھی دشمنی کر رہا ہے۔