ٹیکے کا نشہ

وزیر مملکت برائے انسداد منشیات شہریار آفریدی—فوٹو فیس بک 

حساب کتاب بنیادی انسانی تصورات میں شامل ہے کیونکہ جمع تفریق کے بغیر کوئی ملک تو کیا ایک گھر بھی نہیں چلایا جا سکتا۔ اگر گھر کے سربراہ کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اس کے بچوں کی تعداد کتنی ہے، کونسا بچہ کس عمر میں ہے، کسے کونسا مرض لاحق ہے، کس کی کمزوری کیا ہے تو وہ ان کی ضروریات کا تعین کیسے کر پائے گا؟

 یہی وجہ ہے کہ ہر ملک میں مردم شماری کے علاوہ انواع و اقسام کے سروے کئے جاتے ہیں تاکہ ملکی مسائل کا اِدراک ہو سکے اور پھر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے سائنٹفک انداز میں ان مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔ حکومت کو اگر اس بات کا اندازہ ہی نہ ہو کہ بےگھر لوگوں کی تعداد کتنی ہے؟ کتنے شیر خوار عہدِ طفولیت میں ہی موذی امراض کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں؟ کتنے بچے وسائل دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں؟ تعلیم مکمل کرنے کے بعد روزگار کے لئے دربدر پھرنے والے نوجوانوں کا تخمینہ کیا ہے؟ یا پھر علاج کی سہولت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کتنے بدقسمت افرادموت کے منہ میں چلے جاتے ہیں؟

اگراس نوعیت کے اعداد و شمار دستیاب ہی نہ ہوں پھر ملک چلانے کے لئے پالیسیاں کیسے بنیں گی؟ کسی شادی کی تقریب میں شریک ہو رہے متوقع مہمانوں کی تعداد معلوم نہ ہو تو موزوں انتظامات نہیں ہو سکتے مگر ہمارا ملک مستند اعداد وشمار اور مصدقہ معلومات کے بغیر ہی محض اندازے، قیافہ شناسی اور اللہ توکل چلایا جا رہا ہے۔ اس بات کا انکشاف ایک بار پھر تب ہوا جب جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی طرف سے سینیٹ کے وقفہ سوالات کے دوران پوچھے گئے تین سوالوں کے جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی نے جواب دیا۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ کے گزشتہ سیشن میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کے پوچھے گئے سوال کا تعلق بھی وزارتِ داخلہ سے تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں 80لاکھ افراد چرس کا نشہ کرتے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے؟ اسی طرح جماعت اسلامی کے امیرسینیٹر سراج الحق جاننا چاہ رہے تھے کہ ملک میں نشہ کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے اور کیا یہ بات درست ہے کہ منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے؟ یہ سوال بھی تحریری طور پر جمع کروایا گیا تھا کہ انسدادِ منشیات کے لئے کتنے وفاقی و صوبائی ادارے کام کر رہے ہیں اور ان کی کارکردگی کیا ہے؟

وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی نے پہلے تو یہ اعتراف کیا کہ نشے کی لت میں مبتلا افراد کے اعداد وشمار دستیاب نہیں کیونکہ ہمارے ہاں آخری ڈرگ سروے 2013میں ہوا مگر اس کے بعد کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔ انہوں نے بتایا کہ آخری ڈرگ سروے کے مطابق پاکستان میں چرس، ہیروئن، افیم، کوکین سمیت دیگر نشہ آور ادویات استعمال کرنے والوں کی مجموعی تعداد 6.7ملین ہے اور ان میں 15سے 64سال کی عمر کے لوگ شامل ہیں۔

 شہر یار آفریدی نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں 4لاکھ 30ہزار افراد ٹیکے کے ذریعے نشہ آور ادویات استعمال کرتے ہیں۔ ٹیکے کے ذریعے نشہ کرنے والے لاہور، اسلام آباد، کراچی، پشاور، کوئٹہ سمیت ہر شہر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ جونہی ٹیکے کے ذریعے نشہ آور محلول جسم میں داخل ہوتا ہے وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں اور سب کچھ بدلا سا محسوس ہوتا ہے۔

اس دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ انسداد منشیات کی غرض سے ’’کنٹرول آف نارکوٹکس سب سٹنس ایکٹ‘‘ کے تحت وفاق کے زیر انتظام کام کرنے والے 19قانون نافذ کرنے والے اداروں جبکہ 13صوبائی ایجنسیوں کو منشیات کے خلاف کارروائی کرنے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ پولیس، رینجرز، اے این ایف، ایف آئی اے، اے ایس ایف، موٹروے پولیس، سول ایوی ایشن اتھارٹی، میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، ایف بی آر، پاکستان کوسٹ گارڈز، فاٹا سیکرٹریٹ، ایف سی، پاکستان ریلوے پولیس اور این ایل سی سمیت کتنے ہی اداروں کو منشیات کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے مگر ان سب اداروں کی مجموعی کارکردگی یہ ہے کہ نہ صرف منشیات استعمال کرنے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ نت نئے انداز اور انواع واقسام کی ڈرگز مارکیٹ میں آتی جا رہی ہیں۔

 اسلام آباد میں بالخصوص ’’گولی‘‘کا نشہ مقبول ہو رہا ہے۔ آئس جو 36نشہ آور ادویات کا مجموعہ ہے، کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے، آکسیجن شاٹ اورایکسٹیسی پلز کے بغیر پارٹی ادھوری رہتی ہے، اسی طرح ٹیکے والے نشے کی مانگ میں بھی حیرت انگیز طور پر اضافہ ہورہا ہے۔ نوجوان تجرباتی طور پر ان نشہ آور ادویات کو پارٹی میں استعمال کرتے ہیں اور پھر اس دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں منشیات کے حوالے سے سخت ترین قوانین نافذ ہیں۔ کسی بھی ملک کا قانون نشے کی حالت میں گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دیتا مگر ہمارے ہاں لوگ نشے کی حالت میں جانے کیا کچھ کرتے پھرتے ہیں۔ 

ہمارے ہاں نشہ کرنے کے رجحان میں اس لئے اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ ہم منشیات کی لت میں مبتلا افراد کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور انہیں معاشرے میں واپس لانے کی کوشش نہیں کرتے۔ یوں تو سب نشے ہی مہلک اور جان لیوا ہیں مگر میرے خیال میں ہوس اقتدار کا نشہ افیم، کوکین اور چرس کے نشے سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ دیگر نشہ آور ادویات کے اثرات تو جزوقتی ہوتے ہیں اور چند گھنٹوں بعد انسان کے حواس بحال ہونا شروع ہو جاتے ہیں مگر ہوسِ اقتدار کا نشہ ایسا کم بخت ہے کہ اُترنے کا نام ہی نہیں لیتا اور تب تک لاگو رہتا ہے جب تک انسان اقتدار کی کرسی سے الگ نہیں ہو جاتا بلکہ بعض روایات کے مطابق تو اقتدار سے علیحدگی کے بعد بھی اس نشے کا خمار باقی رہتا ہے۔ 

ہوسِ اقتدار کے نشے میں مبتلا شخص کو سب اچھا دکھائی دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کی طرح سب خوش و خرم ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ نہ تو اس نشے کا سراغ منہ سونگھ کر لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ڈرگ لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے اس نشے کی باقیات ڈھونڈ سکتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :