Time 01 فروری ، 2020
پاکستان

شہباز شریف+ ڈیوڈروز+ڈیلی میل=؟

فوٹو: فائل

طبیعت خوش ہوگئی ہے، دنوں بعد ترو تازہ اور ہشاش بشاش محسوس کررہا ہوں جس کے لئے شہبا زشریف کا شکریہ ادا نہ کرنا سراسر زیادتی ہوگی، سو تھینک یو شہباز شریف۔

گو بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے لیکن چلو دیرآئے درست آئے، شہباز شریف نے بالآخر ڈیوڈ روز اور ’’ڈیلی میل‘‘ کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کردیا ہے کیونکہ ان دونوں نے شہباز شریف پر گھناؤنا ترین الزام لگایا تھا کہ خادم اعلیٰ نے زلزلہ زدگان کو دی جانے والی امداد پر ہاتھ صاف کیا ہے۔

معاملہ خبر کی اشاعت تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ ڈیوڈ روز مسلسل شہباز شریف کو چیلنج کرتا، جگتیں مارتا اور للکارتا رہا کہ اگر تم سچے ہو تو عدالت میں آؤ، شہباز شریف کے لندن پہنچنے پر تو ڈیوڈ روز کی ایکساٹمنٹ باقاعدہ قابل دید تھی لیکن شہباز شریف نے مسلسل ’’مٹھ‘‘ رکھی اور خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی تو ادھر میں نے ڈیوڈ روز اور ڈیلی میل کو شہباز شریف کی چھیڑ اور اپنا تکیہ کلام بنا لیا۔

کفر ٹوٹا خدا، خدا کرکے اور ........ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے، مقدمہ شروع ہونے میں 9 ماہ سے ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے لیکن یار زندہ صحبت باقی  وقت کی یہ صفت خوب ہے کہ گزر جاتا ہے سو یہ 9 تا 12 مہینے بھی گزر ہی جائیں گے پھر فیصلہ آنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟

 جتنا بھی لگتا ہے، وہ بھی گزر جائے گا اور بقول شہباز شریف ’’دودھ کا دودھ، پانی کا پانی‘‘ ہو کے رہے گا، پاکستان تو ’’بادشاہ‘‘ ملک ہے، انگلستان میں ’’دودھ کا دودھ، پانی کا پانی‘‘ ہو تو یقیناً لاجواب ہوگا۔

دوسری جنگ عظیم میں انگلینڈ کے کچھ صحافیوں نے اپنے وزیراعظم ونسٹن چرچل کے سامنے حالات پر ماتم شروع کیا تو اس نے اپنے صحافیوں سے پوچھا ’’یہ بتاؤ کہ کیا ہماری عدالتیں اپنے فرائض بخوبی ادا کر رہی ہیں‘‘؟ ’’ہاں‘‘ میں جواب ملنے پر چرچل نے کہا ’’پھر یقین رکھو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔

مقصد یہ کہ اگر مقدمہ برطانوی عدالتوں میں ہے تو ’’انصاف‘‘ کے لئے ستے خیراں کیونکہ برطانیہ میں بے بنیاد خبریں شائع کرنے کے نتیجہ میں صف اول کے کئی اخبار اور میگزین مقدمے ہارنے پر بند ہوئے اور نوبت جائیداد کی قرقیوں تک بھی جا پہنچی، سو شاباش شہباز! اپنی مخصوص ’’شہباز اسپیڈ‘‘ کا مظاہرہ کرو لیکن اگر کسی مرحلہ پر تم نے ڈنگ ٹپانے، جان چھڑانے، دائیں بائیں ہونے یا سجی دکھا کر کھبی مارنے کی کوشش کی تو ڈیوڈ روز اور ڈیلی میل کا تو علم نہیں، بشرط صحت و زندگی یہ خاکسارپیچھا نہیں چھوڑے گا۔

نہ خود بھولے گا نہ کسی اور کو بھولنے دے گا کیونکہ اس خبر سے پورے ملک کی سبکی ہوئی تھی، ایک اور ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ کے مطابق شہباز شریف نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔

ایک تو ’’اخلاقی فتح‘‘ چاہے وقتی ہی کیوں نہ ہو، دوسری یہ کہ اس نے لندن میں رہنے کا ایک مضبوط جواز پیدا کرلیا ہے، ہو سکے تو بڑے میاں بھی چھوٹے میاں کے ’’نقش قدم‘‘ سے انسپائریشن حاصل کریں کیونکہ ان پر بھی پینٹ ہاؤس کے بحری قذاق ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔

دوسرا بھائی بھی کیس کر دے تو برطانیہ کی عدالتی تاریخ کا ایک انوکھاباب رقم ہو سکتا ہے، دولت چاہے کھربوں ڈالرز میں ہو، تب تک مزہ نہیں دیتی جب تک اس میں چند کلو، چند چھٹانک، چند تولے، چند رتی عزت کی بھی شامل نہ ہو۔

اسی انگلینڈ کے ایک مشہور ترین لارڈ کلائیو نے بھی ہندوستان سے لوٹ مار کے ذریعہ بے تحاشا دولت سمیٹ کر انگلینڈ منتقل کرلی تھی لیکن جب اس کی HONOR اور INTEGRITYپر انگلی اٹھائی گئی تو اس نے زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہوئے خودکشی کرلی تھی۔

ہمارے ہاں خودکشی حرام لیکن ’’خودی‘‘ حلال ہے، یقین نہ آئے تو علامہ اقبال سے پوچھ لیں، لارڈ کلائیو بددیانت ہونے کے باوجود HONOR اور INTEGRITY جیسے الفاظ کا مطلب جانتا اور ان کی عزت کرتا تھا۔

یہاں ایسے ’’دیانتداروں‘‘ کی کمی نہیں جو ان دو لفظوں کو فحش لطیفے جتنی اہمیت بھی نہیں دیتے، ایمرسن (EMERSON) نے کسی ایسے شخص بارے ہی کہا تھا:"THE LOUDER HE TALKED OF HIS HONOR, THE FASTER WE COUNTED OUR SPOONS."اور سبحان اللہ اک خاص طبقہ کے لئے کیسا خراج تحسین ہے۔

"IT IS BETTER TO DESERVE HONORS AND NOT HAVE THEM THAN TO HAVE THEM AND NOT DESERVE THEM."رہ گئی INTEGRITY تو دھنک کی طرح اس کے بھی بے شمار شیڈز ہیں۔

ایک روسی محاورہ ہے :"YOU CAN NOT DRIVE STRAIGHT ON A TWISTING LANE."اور"TAKE CARE OF YOUR CHARACTER, AND YOUR REPUTATION WILL TAKE CARE OF ITSELF."باقی رہ گیا شہباز شریف کا اپنی سکیورٹی اور کیمپ آفسز پر غریب قوم کے 872 کروڑ روپے غارت کرنا تو وہ ہمارا ’’اندرونی معاملہ‘‘ ہے اور ہمارے ایسے ہی ’’اندرونی معاملات‘‘ نے ہمارے ’’اندرونی حالات‘‘ کو یہاں تک پہنچایا..... جہاں تک وہ پہنچ چکے اور واپسی دکھائی نہیں دے رہی، اسحاق ڈار کو نیلامی سے بچنے پر ایک بار پھر مبارکباد۔

مزید خبریں :