30 جنوری ، 2020
وزیراعظم عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی پارٹی کےاندر بحران کو’جزاوسزا‘کی پالیسی کیساتھ ختم کردیا ہے لیکن جب بات انکے تین اہم اتحادیوں ’پی ایم ایل(ق)، ایم کیو ایم (پاکستان)اور جی ڈی اے کی ہوتی ہےتویہ کسی سیز فائر سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور بال انکے کورٹ میں ہے۔
صرف وزیراعظم جانتے ہیں کہ انھوں نے کس مافیاکاحوالہ دیا ہےجو پنجاب اور کے پی میں حکومت کیخلاف کام کررہا ہے کیونکہ انھوں نےکسی کانام نہیں لیاتھا، بظاہر یہ حقیقت سے زیادہ ایک فرضی کہانی لگتی ہے،کیونکہ حقیقی مسئلہ جسے عمران خان ماننے کو تیار نہیں ہیں وہ پنجاب اور کے پی میں ان کا غلط انتخاب ہے جبکہ بلوچستان اوربلوچ نیشنل پارٹی کامسئلہ ختم ہوچکاہے۔
پیر کو وفاقی کابینہ کےاجلاس کے بعد جو کچھ ہوا وہ وزیراعظم کی کمزوری کی علامت ہے کیونکہ 24گھنٹے کے دوران انھوں نےوزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ کو گورنر سندھ کی موجودگی میں آئی جی پی سندھ کلیم امام کے ٹرانسفرکےمعاملے پراپنی مرضی ظاہر کی، پھر کپتان نے اپنا سب سے بڑا یوٹرن لیا کیونکہ انکے اتحادی جی ڈے اے نے آئی جی پی کے جانشین مشتاق مہرکی مخالفت کی جس سے وزیراعظم اپنےپہلے والے فیصلےسے پیچھے ہٹ گئے۔
اگرچہ یہ دونوں حکومتوں کےمابین معاملہ ہے ، لیکن وفاقی کابینہ میں جی ڈی اے کے وزرا نے وزیر اعظم کو بتایا ، کہ وہ بھی اس معاملے میں اسٹیک ہولڈر ہیں۔
قبل ازیں اپنے دورہ کراچی کے دوران وزیر اعظم نےپیر پگاراسے ملاقات کی اور اسلام آباد روانگی سے قبل گورنر اسماعیل سےاس معاملے پر تبادلہ خیال کیا اور دونوں نے وزیراعلیٰ کی طرف سے پیش کردہ آئی جی پی نام پر اتفاق کیا اورمشتاق مہر پانچ ناموں میں متفقہ امیدوار کے طور پر سامنےآئے۔ جی ڈی اےکوئی ایسا شخص چاہتی ہے جو سندھ میں پیپلز پارٹی کیلئے مشکلات کا باعث بنے۔
ایم کیو ایم (پاکستان) کےساتھ معاملات بھی حل نہیں ہوئےکیونکہ پارٹی کے ایک رہنما نے پیشرفت کو ʼصفر قرار دیا ہے۔ ایم کیو ایم کےساتھ وزیراعظم کا نہ تو کوئی ملاقات طےہوئی اور نہ ہی سابقہ دورہ کراچی کےدوران کوئی درخواست کی گئی تھی۔
پارٹی کے ایک مرکزی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھے بتایا کہ جہاں تک ہمارے مطالبات کا تعلق ہےتواس وقت تک صفرپیشرفت ہےجب سےوفاقی وزیر اسد عمر کی سربراہی میں اعلی سطح کے وفدنےہمارے بہادر آباد کےمرکزی دفترکادورہ کیااورکچھ پختہ یقین دہانی کرائی۔
انہوں نے مزیدکہا کہ ہم کہیں نہیں جارہے ہیں اور نہ ہی مذاکرات کہیں جارہےہیں۔ ایم کیو ایم کے اہم مطالبات میں کراچی میں مردم شماری سے متعلق حکومتی مددشامل ہے، جسے ایم کیوایم نےسندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا،حیدرآباد یونیورسٹی کھولنے،ترقیاتی فنڈزکےاجراءاور پی ٹی آئی اور وفاقی حکومت کی سیاسی حمایت سےاپنےسیکٹر اور یونٹ دفاترکو دوبارہ کھولنے کےمطالبے شامل ہیں، جنھیں بظاہر ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ نے’ویٹو‘کیا ہے۔
جہاں تک اس کے ’لاپتہ افراد‘ کے معاملےکاتعلق ہےتوپارٹی کا دعوی ہےکہ اب بھی تقریباً150افرادلاپتہ ہیں جبکہ 35 واپس گھرآئےہیں۔ ایم کیو ایم کے مطالبات کےباعث وزیر اعظم کو کراچی میں اپنی ہی پارٹی کی طرف سے بھی کچھ مزاحمت اور تحفظات کا سامنا ہے، جس کی این اےکی 14 نشستیں ہیں۔
ذرائع نے بتایا ، پی ٹی آئی کی نگاہ ʼکراچی میئر پرہے اوراس طرح اس کےکراچی کے رہنما نے وزیراعظم سےکہا کہ حکومت میئرکو فنڈز دینےکے بجائے چند ماہ کےوقت میں خود ہی اپنے پراجیکٹس پرکام تیز کر دے۔
ڈیووس سے واپسی کے فورا بعد ہی وزیر اعظم نے پنجاب اور کے پی میں اپنی پارٹی کےاندر بحران حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ لاہور گئے اور انہوں نے پی ٹی آئی کے ایم این ایزاور ایم پی ایزسے ملاقات کی تاکہ ʼبزداربحران سےنمٹاجائے، انہوں نے گجرات کے چودھریوں سے ملاقات سے گریز کیا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔