04 فروری ، 2020
عجیب سی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں ہم لوگ اور اِس نحوست سے نکلنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں تو مزید دھنستے چلے جاتے ہیں۔
چند گنی چنی شخصیات اور مخصوص حالات نے پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے، نہ ان حالات سے جان چھٹتی ہے نہ مخصوص شخصیات سے نجات ملتی ہے تو نئے موضوعات کہاں سے آئیں گے؟
مدتوں سے رکا ہوا پانی جراثیموں، بدبو اور سڑانڈ کا باعث ہے، ہوا ایسی رکی، حبس میں یوں اضافہ ہوا کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ، اللہ جانے ان شخصیات اور حالات سے کب نجات ملے گی؟
کبھی ملے گی بھی یا نہیں اور آئندہ نسلوں کو بھی اسی تنخواہ پر کام کرنا پڑے گا، جب سے ہوش سنبھالا، کوئلوں پر سینہ کوبی اور ماتم کے مناظر دیکھ رہا ہوں۔
میں ٹین ایجر تھا جب حبیب جالب نے مہنگائی پر باقاعدہ سریلے انداز میں ماتم شروع کرتے ہوئے کہا کہ بیس روپیہ من آٹا اس پر بھی ہے سناٹا، اس زمانے میں 20روپے باعزت رقم تھی۔
دوسری طرف سے آواز آئی غالباً جوش ملیح آبادی کی کہ وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی یہ ملین ڈالر مصرع بھی زبان زد عام ہو کر پاکستان کی شخصیات کو بےنقاب کر رہا تھا۔
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہو گا آج ترقی یوں ہوئی کہ الو بیٹھا ہےکی جگہ الو بیٹھے ہیں کیونکہ آبادی بہت بڑھ چکی۔
بیچ میں کسی نے دہائی دی، منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے آج بھی دیکھ لیں عین سے عثمان بزدار اس مصرع کی شاندار ترین مثال ہے لیکن ڈھٹائی کی انتہا کہ پھر بھی میرٹ کے دعویدار ہیں۔
غور کریں تو معلوم ہوگا کہ عشروں پرانی شاعری آج کی صورتحال پر روشنی بکھیر رہی ہے تب بھی سچ، اب بھی سچ۔
کیسا عجب اتفاق ہے کہ قومیں چین تا سنگاپور و ملائیشیا نیچے سے اوپر جاتی ہیں، ہم بہت اوپر سے بہت نیچے آئے، بابائے قوم محمد علی جناح کے حریف بھی مانتے تھے کہ اس شخص کو نہ خریدا جا سکتا ہے نہ ڈرایا جھکایا جا سکتا ہے۔
بابا کا حال یہ تھا کہ مہمانوں کے رخصت ہوتے ہی خود گورنر جنرل ہاؤس کی بتیاں بجھاتے پھرتے حالانکہ تب بجلی ٹکے ٹوکری تھی۔
بیمار تھے کہ نرس کی ٹرانسفر ہو گئی، اس نے ٹرانسفر رکوانے کی درخواست کی تو بولے میں سرکاری کاموں میں مداخلت کو صحیح نہیں سمجھتا، بسترِ مرگ پر تھے نرس نے ٹمپریچر دیکھا آپ نے پوچھا کتنا ہے؟ نرس نے کہا صرف ڈاکٹر کو بتاؤں گی آپ کو نہیں۔
نرس کمرے سے باہر گئی تو مادرِ ملت سے کہا مجھے ایسے ہی لوگ پسند ہیں، کوئی خادمِ اعلیٰ ہوتا تو بیچاری نرس ماری جاتی، معطل نہیں بلکہ ڈسمس کر دی جاتی، آپ نے تو اپنی نرس کی ٹرانسفر رکوانے سے انکار کر دیا جبکہ پھر اس ملک پر ایسے ایسے شرفاء بھی مسلط ہوئے جنہوں نے جرائم پیشہ لوگوں کو پولیس میں بھرتی کیا اور رولز کو ریلیکس کرتے ہوئے سہالہ میں تربیت مکمل نہ کرنے کی سہولت بھی دیدی۔
ان ہوائی لوگوں نے اپنی سیاسی جڑیں بنانے کیلئے 63,63سال کے بزرگ پٹواری اور 65,65سال کے نائب تحصیلدار بھی بھرتی کئے، پورا ملک بگڑ گیا لیکن ان کے حلقہ ہائے انتخاب ضرور بن گئے۔
کواپریٹوز سے لے کر بینک تک لٹ گئے لیکن ان قائدین کا ووٹ بینک ضرور قائم ہو گیا جس کا جنم اس سوچ کی کوکھ میں ہوا تھا کہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں۔
واقعی حرام رزق حرام سوچ کو ہی جنم دیتا ہے جو بالآخر پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، آج کا یہ سارا کالم بلکہ یہ ساری رطب و یابس صرف چند اخباری خبروں کی پیداوار ہے جس کی تفصیل میں جانے سے میرے بلڈپریشر میں اضافے کا خطرہ ہے حالانکہ میں صبح کا آغاز کونکور کی گولی سے کرتا ہوں، اس لئے صرف سرخیوں پر اکتفا کروں گا، ویسے بھی ماشاء اللہ قارئین اتنے ذہین ہیں کہ اشارہ ہی کافی ہے۔
پہلی خبر، نواز شریف نے بیت المال کے ایک ارب 40 کروڑ روپے اپنے سیاسی ورکرز میں تقسیم کئے (کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے) چائلڈ لیبر کی روک تھام کا فنڈ بھی خوردبرد سعودی عرب سےبیروزگار ہونے والے ملازموں کے ناموں پر 75کروڑ روپے کی لوٹ مار کی گئی، رپورٹ پارلیمانی کمیٹی میں پیش، تحقیقات جاری، (واقعی کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں)
دوسری خبر، بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ فنڈ پر شہباز شریف کے بیرونی دوروں پر 68لاکھ خرچ سابق وزیراعلیٰ نے رقم غیر قانونی طور پر خرچ کی، حاصلِ وصول زیرو فنڈز شہباز شریف کے پرسنل اسٹاف افسر کو ایڈوانس میں محض ایک لیٹر کی بنیاد پر جاری کئے گئے آڈٹ رپورٹ میں انکشاف۔
رقم یعنی 68لاکھ بہت معمولی ہے لیکن لوٹ مار، دھونس، دھاندلی، لاقانونیت کا انداز واقعی غیر معمولی ہے،کیا ملک اس طرح چلتے ہیں؟ اسی لئے ملک چل نہیں رہا، بری طرح لڑکھڑا اور لنگڑا رہا ہے۔