04 فروری ، 2020
خیبر پختونخواحکومت نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیشِ نظر صوبے میں ایمرجنسی نافذ کردی۔
محکمہ بحالی و آباد کاری خیبر پختونخوا کی جانب سے کورونا وائرس کے پیشِ نظر ایمرجنسی کے حوالے سے اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق وفاقی وزارت صحت سے موصول احکامات کی روشنی میں ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے چین سے بِلاروک ٹوک مسافروں کا آنا جا نا رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ متعلقہ ادارے احتیاطی تدابیر سمیت تمام تر ممکنہ اقدامات کو فوری یقینی بنائیں۔
اعلامیے کے مطابق خیبر پختونخوا میں ممکنہ کورونا وائرس کو روکنے اور اس پر قابو پانے کے لیے پیشگی حفاظتی اقدامات ضروری ہیں۔
دوسری جانب ڈی جی ہیلتھ سروسز خیبرپختونخوا کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق پولیس سروسز اسپتال میں او پی ڈی سروسز کو بند کرکے اسپتال کو کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے پولیس سروسز اسپتال پشاور کے ڈپٹی میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر اورنگزیب آفریدی نے جیو نیوز کو بتایا کہ سروسز اسپتال کو کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
اسپتال میں او پی ڈی سروسز بند کردی گئی ہیں جب کہ اسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
سروسز اسپتال میں ابتدائی طور پر 5 بستروں پر مشتمل آئسولیشن وارڈ قائم کیا گیا ہے جب کہ کورونا وائرس سے بچنے کے لئے حفاظتی کٹس اسلام آباد پہنچ چکی ہیں جنہیں جلد سروسز اسپتال لایا جائے گا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق کورونا وائرسز ایک سے زائد وائرس کا خاندان ہے جس کی وجہ سے عام سردی سے لے کر زیادہ سنگین نوعیت کی بیماریوں، جیسے مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (مرس) اور سیویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم (سارس) جیسے امراض کی وجہ بن سکتا ہے۔
یہ وائرس عام طور پر جانوروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سارس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ بلیوں کی ایک خاص نسل Civet Cats جسے اردو میں مشک بلاؤ اور گربہ زباد وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس سے انسانوں میں منتقل ہوا جبکہ مرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص نسل کے اونٹ سے انسانوں میں منتقل ہوا۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وائرس کی علامات میں سانس لینے میں دشواری، بخار، کھانسی اور نظام تنفس سے جڑی دیگر بیماریاں شامل ہیں۔
اس وائرس کی شدید نوعیت کے باعث گردے فیل ہوسکتے ہیں، نمونیا اور یہاں تک کے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق کورونا وائرس اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ اس وائرس کی ایک اور قسم سارس ہے جس سے 3-2002 کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 800 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور یہ وائرس بھی چین سے پھیلا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری انفلوئنزا یا فلو جیسی ہی ہے اور اس سے ابھی تک اموات کافی حد تک کم ہیں۔
ماہرین کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق لوگوں کو بار بار صابن سے ہاتھ دھونے چاہئیں اور ماسک کا استعمال کرنا چاہیئے اور بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے مشورے سے ادویات استعمال کرنی چاہیئے۔