06 فروری ، 2020
پوری دنیا چین سے جنم لینے والے ’’کورونا وائرس‘‘ سے پریشان ہے مگر حیرت ہے ایک اور چینی وائرس جو ’’کورونا‘‘ کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور، توانا اور خطرناک ہے اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں جا رہی۔
نئے سال کے آغاز پر جنوری کے وسط میں انکشاف ہوا کہ چین کے شہر ووہان سے کوئی مہلک وائرس جانوروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ چینی حکومت نے ووہان شہر کو طبی قید خانے میں بدل دیا یعنی اس شہر کے تمام داخلی و خارجی راستے بند کر دیے گئے تاکہ کورونا وائرس پھیل کر وبا کی شکل نہ اختیار کر لے۔
متاثرہ افراد کا علاج کرنے کیلئے ایک اسپتال بنانے کا اعلان کیا گیا۔ 24جنوری کو میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ اسپتال بنانے کیلئے زمین ہموار کی جا رہی ہے اور دس دن بعد 50ہزار مربع میٹر پر محیط 1000بیڈ کے اس اسپتال میں مریض داخل کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
’’شیشان ہاسپٹل‘‘ میں ان مریضوں کو داخل کیا جا رہا ہے جن کی اسکریننگ کے بعد اُن میں اس وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور اسپتال کی تعمیر کا بھی کام جاری ہے، بعید نہیں کہ یہ کالم شائع ہونے تک دوسرا اسپتال بھی مکمل کیا جا چکا ہو۔ 2003میں جب سارس وائرس نے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی تو بیجنگ میں اس کے علاج کی سہولت مہیا کرنے کی غرض سے ’’ژتانگشان ہاسپٹل‘‘7 دن کی ریکارڈ مدت میں مکمل کر لیا گیا تھا۔
میرا خیال ہے جناتی اور کرشماتی رفتار سے حالات کا مقابلہ کرنے کا یہ چینی وائرس دنیا بھر کے تمام جانے انجانے وائرس کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط اور توانا ہے اور جیسے تیسے اس وائرس کو اپنے ہاں لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
چونکہ ہم تدبیر کے بجائے تقدیر کے قائل ہیں، اسباب کے بجائےکرشموں پر یقین رکھتے ہیں اس لیے ہمارے ہاں قدرتی آفات کو عذابِ الٰہی سمجھا جاتا ہے اور جن علاقوں پر کوئی مصیبت آتی ہے اس کے مکینوں کو گناہوں پر توبہ کرنے کی نصیحت پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں ’’کورونا وائرس‘‘ سامنے آنے کے بعد کئی مشائخِ عظام نے اسے رب کا عذاب قرار دیا تو دور کی کوڑی لانے والے متعدد ’’دانشوروں‘‘ نے حیاتیاتی حملے اور غیر ملکی سازش کا منجن بیچنا شروع کر دیا۔
خدانخواستہ ہمارے ہاں کسی قسم کا کوئی بحران آئے تو پہلی فرصت میں اسے جھٹلانے اور لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی کہ یہ بے پَر کی ہمارے دشمنوں نے اُڑائی ہے، جمع خاطر رکھیں اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں، حالات قابو میں ہیں۔
کم بخت میڈیا سے کوئی بات ہضم نہیں ہوتی اس لیے بھانڈا پھوٹ جائے تو ڈی سی او سے چیف سیکریٹری، مجسٹریٹ درجہ اول سے چیف جسٹس اور کونسلر سے وزیراعظم تک سب یکے بعد دیگرے واقعہ کا نوٹس لیتے ہیں۔
رپورٹ طلب کرتے ہیں، اگر اس دوران بات آئی گئی ہو جائے تو ٹھیک ورنہ تحقیقات کیلئے کوئی کمیٹی یا کمیشن بنا دیا جاتا ہے، اللہ اللہ خیر صلّا مگر یہ چینی عجیب لوگ ہیں۔
انہوں نے نہ تو کورونا وائرس کو سی آئی اے کی سازش قرار دے کر رد کیا اور نہ ہی اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی۔
یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ وہ اس حملے کو چینی معیشت کو تباہ کرنے کی غیر ملکی سازش اور مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے نظر انداز کر دیتے مگر چینی حکومت نے اس حقیقت کو جھٹلانے پر اپنی توانائیاں ضائع کرنے کے بجائے اس کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔
چین کے ٹریک ریکارڈ کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہاں تک تو بات قابلِ فہم ہے مگر چیستاں میں لپٹی پہیلی تو یہ ہے کہ اتنا بڑا اسپتال دس دن میں کیسے بنا لیا؟
اس منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ کب بنی، کس کمیٹی نے اس پر غور کیا، کب یہ معاملہ کابینہ کے سامنے پیش ہوا، کیا اکانومک کو آرڈینیشن کمیٹی سے اس منصوبے کی منظوری لی گئی؟ وزارتِ خزانہ نے کب بجٹ منظور کیا؟ اسپتال بنانے کا ٹاسک کس ادارے کو دیا گیا؟
اس ادارے نے ٹینڈر کب جاری کیا؟ بولی میں کس کس نے حصہ لیا؟ کیا عمارت تعمیر کرنے سے پہلے ووہان کی ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے نقشہ منظور کروایا گیا؟ اس منصوبے کی فائل کتنے سرکاری دفاتر کا طواف کرکے آئی اور اس دوران کسی منہ زور سرکاری افسر نے اپنی اَنا کی تسکین کی خاطر فائل دبانے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا؟ کیا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اس منصوبے کا جائزہ لیا؟ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟
کیا اتنے بڑے منصوبے کیلئے کسی غیر ملکی کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی گئیں؟ اگر یہ سب نہیں ہوا تو میڈیا نے بےضابطگیوں کی خبر کیوں نہیں دی؟ اپوزیشن جماعتوں نے خورد برد کا الزام کیوں نہیں لگایا؟ کسی عدالت نے ازخود نوٹس لے کر حکمِ امتناعی کیوں جاری نہیں کیا؟
احتساب کرنے والے کسی ادارے نے ووہان کے میئر کو حراست میں لے کر تفتیش کیوں نہیں کی؟ حکومتی عہدیدار تعمیراتی کام کا جائزہ لینے موقع پر کیوں نہیں پہنچے؟ یہ کیسا منصوبہ ہے جس میں کسی سرکاری افسر کو نااہلی پر معطل نہیں کیا گیا اور پھر منصوبے کی تکمیل پر چینی صدر کو فیتہ کاٹنے کےلئے نہیں بلایا گیا؟
کم از کم چینی حکام اسپتال کا دورہ کرتے اور مریضوں سے ان کا حال دریافت کرتے تو دکھایا جاتا۔
ہمارے ہاں کسی نے اس چینی وائرس کی طرف تو توجہ نہیں دی البتہ چمگادڑ، کینچوے اور سانپ کھانے پر ان کی بھد اُڑانے کا قومی فریضہ سب نے مل کر ادا کیا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ چینی حرام جانور ضرور کھاتے ہیں مگر حرام خوری نہیں کرتے۔
ہم دوسروں کا حق مار کر جمع کی گئی دولت سے حلال خوراک ضرور تناول کرتے ہیں مگر ہڈ حرامی میں کوئی ہمارا ثانی نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دس دن میں شوکت خانم جیسا ہاسپٹل بنا لیا اور ہم چار سال میں بی آر ٹی نہیں بنا سکے۔