06 فروری ، 2020
کراچی: چیف جسٹس پاکستان نے کراچی میں تجاوزات سے متعلق کیس میں میئر کراچی، سندھ حکومت اور سیکریٹری بلدیات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں نے مفاد پرستی میں شہر کا کیا حشر کردیا، پورے پورے پارکس، قبرستان اور رفاعی پلاٹس غائب ہوگئے، کراچی کو چلانا ہے تو چلا کر دکھائیں ناں، طوطا کہانیاں مت سنائیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کراچی کی اصل شکل میں بحالی اور تجاوزات کے خاتمے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی جس سلسلے میں میئر کراچی، سیکریٹری بلدیات اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو آئین کا آرٹیکل 140 پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے استفسار کیا کہ بتائیں شہر کو خوبصورت کیوں نہیں بناتے آپ لوگ؟جو کچھ آپ لوگ کررہے ہیں یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ میئر کی ذمہ داری ہے ہر سوال کا جواب دیں، میئر کراچی کیوں جواب نہیں دیتے؟ آگے آئیں میئر صاحب آپ کی انتظامی ذمہ داری ہے۔
آپ لوگ سوٹ پہن کر دفتروں میں بیٹھے رہتے ہیں باہر نکلنے کو تیار نہیں: عدالت
عدالت کے استفسار پر سیکریٹری بلدیات نے بتایا کہ یہ لوکل گورنمنٹ اور بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے، اختیارات نہ ہونے کا میئر کا دعویٰ درست نہیں، بلدیاتی اداروں کے پاس مکمل مالی اختیارات ہیں، کئی منصوبے ورلڈ بینک کے تعاون سے چل رہے ہیں۔
سیکریٹری بلدیات کے بیان پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کی بات ٹھیک ہے تو ہم میئر کی ایک کہانی بھی نہیں سنیں گے، ان کو ایک گیت بھی گانے نہیں دیں گے، آپ لوگ سوٹ پہن کر دفتروں میں بیٹھے رہتے ہیں باہر نکلنے کو تیار نہیں، یہاں آکر کہانیاں سنا دیتے ہیں ورلڈ بینک فلاں بینک، بتائیں آخری دفعہ باہر کب نکلے تھے؟ کوئی روڈ دیکھا ہے آپ نے؟ آپ کسی کے لاڈلے ہوں گے یہاں، کسی کے لاڈلے نہیں، کبھی لیاری، منگھو پیر، پاک کالونی، لالو کھیت اورناظم آباد گئے ہیں؟ یہ تو آرٹیکل 6کا کیس بنتا ہے آپ لوگ آئین توڑ رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ لوگوں کو کچھ ملا ؟سب کچھ تو آپ کی جیب میں چلا گیا، کراچی کا کوئی کام بھی ہو لوکل گورنمنٹ کے ذریعے ہونا چاہیے، آپ اور سب پاکستان کے لیے کام کررہے ہیں یہ آئین کی پابندی آپ کی ذمہ داری نہیں؟
پورے پورے پارکس، قبرستان اور رفاعی پلاٹس غائب ہوگئے، کراچی کو چلانا ہے تو چلا کر دکھائیں ناں، طوطا کہانیاں مت سنائیں: چیف جسٹس پاکستان
عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ وزیراعلیٰ سے رپورٹ لے کر دیں کیوں نہیں ہورہا کام؟
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ اگر میئر سے کام نہیں لینا تو ان کو گھر بھیج دیں، انہیں کیوں رکھا ہوا ہے؟ کراچی میں جو کچھ ہورہا ہے یہ کیوں ہونے دیا؟ یہ کوئی گاؤں نہیں ہے،کبھی کراچی پاکستان کا نگینہ ہوا کرتا تھا، آپ لوگوں نے مفاد پرستی میں شہر کا کیا حشر کردیا، پورے پورے پارکس، قبرستان اور رفاعی پلاٹس غائب ہوگئے، کراچی کو چلانا ہے تو چلا کر دکھائیں ناں، طوطا کہانیاں مت سنائیں، یہاں بیوروکریٹ اس طرح باتیں نہیں کرتا کام کرتا ہے۔
اس موقع پر میئر کراچی وسیم اختر نے عدالت میں کہا کہ آپ نے سندھ حکومت کو متنازع معاملات پر میٹنگ کا حکم دیا تھا، متعدد یاد دہانی کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی، ہمیں 7 ارب روپے تنخواہوں اور بینشن کے ملتے ہیں۔
عدالت نے میئر کراچی سے سوال کیا کہ آپ نے سڑکیں بنائی ہیں؟ کہاں سڑک بنائی ہے؟ اس پر وسیم اختر نے جواب دیا کہ ناظم آباد میں چھوٹی گلیوں کی سڑکیں بنائی ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ناظم آباد میں کوئی چھوٹی گلیاں نہیں ہیں، ریکارڈ پیش کریں،کتنی سڑکیں بنائی ہیں؟
ریکارڈ بعد میں، ابھی یہ بتائیں کیا کیا آپ نے شہر کے لیے؟ وسیم اختر سے سوال
دورانِ سماعت ایک خاتون نے عدالت میں شکایت کی کہ ایک ہی سڑک تین دفعہ توڑ کر بنادی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے شہر کے لوگ کہہ رہے ہیں کچھ نہیں بنا۔
میئر کراچی نے عدالت کو سڑکیں بنانے کا ریکارڈ پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں، آپ بعد میں لائیں ریکارڈ، ابھی بتائیں کیا کیا آپ نے شہر کے لیے؟