10 فروری ، 2020
بچوں سے زیادتی اور اُنہیں قتل کرنے جیسے سنگین جرم کے بڑھتے رجحان کو روکنے کے لیے قومی اسمبلی نے گزشتہ ہفتے ایک قرارداد پاس کی ہے جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اُن درندوں جو ایسے فعل کے مرتکب ہوتے ہیں، کو سرِعام پھانسی دے کر عبرت کا نشان بنایا جائے۔
تاکہ معاشرے میں ایسی سوچ رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو اور اُن کے دل و دماغ میں یہ ڈر پیدا کیا جا سکے کہ اگر کوئی اِس جرم کا مرتکب ہوگا تو اُسے بھی سرِعام پھانسی کی سزا دی جائے گی۔
یہ قرارداد تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیرِ مملکت علی محمد خان نے پیش کی جس کو اکثریت کی حمایت سے پاس کر لیا گیا، پیپلز پارٹی نے اس قرارداد کی مخالفت کی، علی محمد خان کے ساتھ قومی اسمبلی کے وہ تمام ممبران جنہوں نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالا، خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔
اس قرارداد کے پاس ہوتے ہی تحریک انصاف کے چند ایک وزرا جو سیکولر سوچ کے مالک ہیں، نے سوشل میڈیا پر دیے گئے اپنے بیانات میں اس قرارداد کے پاس ہونے پر تنقید کی اور کچھ ایسی بھی باتیں کیں جو غیر مناسب تھیں۔
اس پر علی محمد خان نے ٹویٹ کے ذریعے یہ بیان دیا کہ اسلامی سزاؤں کو ظلم و بربریت کہنے والے خود ظالم ہیں، علی نے یہ بھی کہا کہ کوئی کچھ بھی کہے، جو اللّٰہ کا حکم ہے اس پر عمل ہونا چاہیے۔
اُنہوں نے کہا کہ جس کی زینب کے ساتھ زیادتی ہوئی اور اُسے شہید کر دیا گیا، اُسی کو اس درد کا علم ہے، وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ ایسے ظالم درندوں (جو اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں) کے لیے ایک ہی سزا ہے جس سے دیگر ایسے درندوں کو ٹھوس پیغام ملے گا کہ پاکستانی مزید اپنے بچوں کی بےحرمت لاشیں برداشت نہیں کر سکتے۔
جو باتیں علی محمد خان نے کی ہیں وہ سو فیصد درست ہیں، ایک ایسی حکومت کے وزیر جو ریاستِ مدینہ کا نام لیتی ہے، اس سے یہی توقع کی جا سکتی ہے لیکن اسی حکومت اور حکمران جماعت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے چند دوسرے وزرا وہ بات کر رہے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف اور مغربی معاشرے کی سوچ کی عکاسی ہے۔
یہ وہ معاملہ ہے جس کا نوٹس وزیراعظم عمران خان کو لینا چاہیے، سب کو معلوم ہے کہ تحریک انصاف میں اگر اسلام پسند سوچ رکھنے والے موجود ہیں تو ایسے بھی رہنما اس سیاسی جماعت میں موجود ہیں جو اسلامی نظام کے حامی نہیں اور سیکولر ازم و لبرلزم کے داعی ہیں۔
عمران خان اپنی ہر تقریر میں ریاست ِ مدینہ کا حوالہ دیتے ہیں، قرآن و سنت کی بات کرتے ہیں اور یہ ارادہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے لیکن ان تقریروں پر عمل نظر نہیں آتا۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ عمران خان دو کشتیوں میں سوار ہیں۔
وہ اسلامی نظام کے نفاذ کی خواہش بھی رکھتے ہیں لیکن اپنی ہی سیاسی جماعت اور حکومت میں سیکولر بلکہ بعض کیسوں میں اسلام مخالف سوچ رکھنے والوں کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ لگتا ایسا ہے کہ اُنہوں نے سب کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ جو مرضی کہو۔
اگر خان صاحب واقعی پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو پھر اُن کی وہ سوچ جس کا وہ بار بار اظہار کرتے ہیں، کی ہر وزیر، مشیر اور حکومت کے ذمہ داروں کو نہ صرف بات کرنی چاہیے بلکہ اُن کے رویوں سے ظاہر بھی ہونی چاہیے۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ سب کو خوش رکھا جائے یا ہر ایک کو اُس کی مرضی کی سوچ اور نظریے کو آگے بڑھانے کے لیے کھلی چھٹی دے دی جائے، اس کیس میں دو کشتیوں کی سواری کا معاملہ نہیں چل سکتا، بچوں کے ساتھ زیادتی اور اُن کے قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں قومی اسمبلی نے جو قراردار پاس کی ہے اُس پر عمل درآمد کے لیے عمران خان کو مغرب یا مغرب زدہ مقامی گروہ سے بغیر کسی ڈر اور خوف کے واضح سٹینڈ لینا ہوگا۔ اسی طرح یہ نہیں ہو سکتا کہ خان صاحب نام تو ریاست ِ مدینہ کا لیں لیکن عمل کا وقت آئے تو سود کی لعنت کو ختم کرنے کے بجائے اُسے مزید تقویت دیں۔
وزیراعظم کی اہلیہ ایک باپردہ خاتون ہیں اور وزیراعظم خود بھی معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانیت سے متعلق ناپسندیدگی کا اظہار کر چکے ہیں لیکن ایسا کیوں ہے کہ پردہ جیسے اسلامی حکم کے فروغ اور فحاشی و عریانیت کو روکنے کے لیے خان صاحب کی طرف سے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
جو خان صاحب کہتے ہیں اُس کا عکس اُن کی پارٹی کیساتھ ساتھ اُن کی حکومت کے ہر عمل سے ظاہر ہونا چاہیے، یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ بات تو ریاست ِ مدینہ کی کریں لیکن اعلیٰ حکومتی ایوارڈ دینے کا وقت آئے تو ایک ایسے فرد کو یہ ایوارڈ دیں جو فحاشی و عریانیت پھیلانے کا سبب ہو۔
بچوں سے زیادتی کرنے والوں کو سرِ عام پھانسی دینا اگر لازم ہے تو ایسے جرائم کو روکنے کے لیے معاشرے کو فحاشی و عریانیت سے بھی پاک کیا جائے جس کے لیے میڈیا کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی بھی صفائی لازم ہے جو حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ صرف باتوں اور تقریروں سے بہتری نہیں آئے گی۔