پاکستان
Time 11 فروری ، 2020

’چین سے پاکستانیوں کو نہ نکالنے کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے‘

اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے چین میں پھنسے پاکستانیوں کی واپسی سے متعلق درخواست کی سماعت میں وزارت خارجہ کو کہا ہے کہ  چین سے پاکستانی شہریوں کو نہ نکالنے کےفیصلے پر نظرثانی کریں۔

وزارت خارجہ نے رپورٹ پیش کردی

اسلام آباد ہائیکورٹ میں چین میں پھنسے پاکستانیوں کی واپسی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی جس سلسلے میں وزارت صحت اور وزارت خارجہ کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے جب کہ وزارت خارجہ کے ڈی جی چائنا نے تحریری رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بنگلا دیش سمیت دیگر ممالک اپنے شہریوں کو چین سے نکال رہے ہیں، ہمارا سوال ہے صرف ہم اپنے شہریوں کو کیوں نہیں نکال رہے۔

اس پر حکومتی نمائندے نے بتایا کہ 194 ممالک میں سے صرف 23 ممالک نے شہریوں کو نکالا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ 23 ممالک اپنے شہریوں کو محفوظ کرنے کے انتظامات کرسکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟جن ممالک نے اپنے شہریوں کو نکالا انہوں نے کیا بندوبست کیا؟ آسٹریلیا نے چین سے آئے شہریوں کو کسی آئی لینڈ پر رکھا،آپ گوادرکے پاس رکھ لیں، پاکستانی اسٹوڈنٹس چین میں محصور ہیں۔

23 ممالک اپنے شہریوں کو محفوظ کرنے کے انتظامات کرسکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتےکہ حکومت شہریوں کے تحفظ میں سنجیدہ نہیں، آپ نے پاکستان میں موجود 20 ملین افراد کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔

وزارت خارجہ کے نمائندے نے عدالت میں بتایا کہ چین سے مسافروں کی آمدورفت پر پابندی نہیں، ائیرپورٹس پر اسکریننگ کی جاتی ہے، چین نےکورونا وائرس سے متاثرہ ووہان سٹی کو مکمل لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے، جہاں سے کوئی بھی حرکت نہیں کرسکتا جب کہ چینی وزیرخارجہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستانیوں کا خیال رکھا جائے گا۔

نمائندے کے جواب پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ہم اپنے شہریوں کو نکالیں گے تو چین سے تعلقات متاثر ہوں گے؟ اس پر نمائندہ وزارت خارجہ نے کہا کہ وزارت خارجہ اس صورتحال کو مانیٹر کررہی ہے، جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ملک اور طالب علموں کے مفاد میں ہوگا۔

چینی حکومت نے ہماری سفیر کو بھی ووہان جانے سے منع کردیا: وزارت خارجہ

نمائندہ وزارت خارجہ نے مزید بتایا کہ ہم نے چینی حکومت سےکہا تھا ہمارے سفیر کو ووہان جانے کی اجازت دی جائے، چینی حکومت کا جواب تھا وہ کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتے۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا ریاست پاکستان بیان حلفی دےگی کہ کچھ ہواتو ذمہ دار کون ہوگا؟ عدالت چاہتی ہے ریاست اپنے شہریوں کی ذمہ داری لے، ایک پاکستانی کو بھی کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری کس پر ہو گی؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے وزارت خارجہ کے نمائندے کو کہا کہ چین سے پاکستانی شہریوں کو نہ نکالنے کےفیصلے پرنظرثانی کریں، ہم اس حوالے سے کوئی حکم نہیں دے رہے،آپ دو ہفتوں کا وقت لے لیں۔

مزید خبریں :