14 فروری ، 2020
سوال اس کا دلچسپ تھا اور میں سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ اس کا یہ کہنا بھی درست تھا کہ ہم کالم نگار علمی، سیاسی اور حکمرانوں کے موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں اور عوام کی سطح پر اترتے ہی نہیں۔ ہمیں زیادہ فکر اور پریشانی حکمرانوں کی اندرونی کمزوریوں، جماعتی دھڑے بندیوں اور اقتدار کو درپیش خطرات کی رہتی ہے اور ہمیں 22 کروڑ عوام کی فکر نہیں۔
چھوٹتے ہی اس کا سوال یہ تھا کہ جو ملک دنیا بھر میں گندم کی پیداوار کے حوالے سے آٹھویں نمبر پر ہو، چاول کی پیداوار کیلئے دسویں نمبر پر، چنے کیلئے تیسرے نمبر پر اور کھجور کی پیداوار کیلئے پانچویں نمبر پر ہو، کیا اس ملک میں غذائی قلت ہو سکتی ہے یا قحط پڑ سکتا ہے؟
جس ملک کی زمین زرخیر ترین، کسان اور عوام جفاکش، محنتی اور بہادر، آبپاشی کا نظام دنیا بھر میں طویل ترین، ملک میں دریا بھی بہتے ہوں، پہاڑ، ندیاں، نالے، گلیشیر، جنگلات اور سبزوں کی بہار ہو ہر قسم کی سبزیاں اگتی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر نعمت موجود ہو،کیا اس ملک میں عوام کو روٹی یا نان جویں کے لالے پڑ سکتے ہیں؟
اسکی تمہید کا حملہ اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ میں نے بلاسوچے سمجھے جواب دیا ’’کیوں نہیں‘‘ ایسے ملک میں بھی قلت ہو سکتی ہے۔ انگریزوں کا دور انتظامی حوالے سے نہایت منظم تھا لیکن اسکے باوجود بنگال میں قحط پڑا۔ قحط کی بڑی وجہ حکومت کی غلط پالیسیاں اور دوربینی کی کمی تھی۔
اللہ پاک نعمتیں عطا کرتے ہیں لیکن ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا ہمارا کام ہے۔ اگر ہم صحیح طریقے سے فائدہ نہ اٹھائیں تو نقصان ہوتا ہے۔ غذائی قلت مہنگائی کو جنم دیتی ہے اور عوام دو وقت کی روٹی کو ترسنے لگتے ہیں۔
ہمارے ملک میں اس صورتحال کی بڑی وجہ غلط حکومتی پالیسیاں، انتظامی مشینری کی ناکامی اور مفاد پرستوں کی ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے۔
اگر حکومتی ذہنی طور پر بیدار ہو اور بصیرت رکھتی ہو تو یہ نہیں ہوتا کہ منصوبہ بندی کے بغیر پہلے کوئی جنس یا پیداوار برآمد کر دی جائے اور جب ملک میں قلت کا بحران پیدا ہو تو اسے مہنگے داموں درآمد کیا جائے۔
حکومتی چھتری کے نیچے دولت کی ہوس کے شکار بااثر لوگ ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی قلت پیدا کر دیں اور انتظامی مشینری اس کا تدارک نہ کر سکے یا اس قلت سے نپٹنے کیلئے بروقت سرکاری گوداموں سے سپلائی کا انتظام نہ کرے۔
شاہ جی کا دوسرا سوال تھا کہ کیا حکومتی اقدامات اس مسئلے کا حل ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ شاہ جی میں اکانومسٹ نہیں لیکن کامن سینس کہتاہے کہ عمران خان کے خلوص اور بھرپور توجہ کے باوجود یہ مسئلہ اس طرح حل نہیں ہوگا۔
حکومت یوٹیلٹی اسٹوروں اور یوتھ اسٹوروں پر تکیہ کئے بیٹھی ہے جبکہ اس مسئلے کا صحیح حل مارکیٹ میں داموں کو کم کرنا ہے۔ طویل تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ اول تو یوٹیلٹی اسٹوروں سے بہت کم طبقہ فائدہ اٹھاتا ہے، کوالٹی بھی اچھی نہیں ہوتی اور مال بھی چند دنوں کے اندر اندر ختم ہو جاتا ہے۔
تنوروں کا تجربہ شہباز شریف نے بھی کیا اور ناکامی کے بعد اس سے تائب ہوگیا۔ سچ یہ ہے کہ آج تک کسی بھی عوامی مسئلے کا حل سرکاری اداروں کے ذریعے نہیں ہو سکا۔ حکومتی اقدامات کروڑوں لوگوں کے مسائل کا حل نہیں ہیں۔ مارکیٹ میں اجناس کی وافر فراہمی یقینی بنایئے اور قیمت کنٹرول کیجئے۔ قیمتیں خودبخود نارمل ہو جائیں گی۔
سارا مسئلہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا ہے۔ دوسرا پرابلم یہ ہے کہ حکومت وقفے وقفے سے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھاتی رہتی ہے جس سے پیداواری لاگت بڑھتی ہے اور چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
دوسری طرف بجلی اور گیس کے بل عوام کی چیخیں نکلوا رہے ہیں اور ان کی قوتِ خرید کم ہو رہی ہے۔ بیروزگاری بڑھ رہی ہے، ملک کی ستر اسی فیصد آبادی کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا لیکن ان کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔
خود موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے دبائو کے تحت نئے ٹیکس لگائے ہیں اور ٹیکسوں میں اضافہ بھی کیا ہے۔
ہر شہری کو ہر شے کی خرید پر تقریباً پندرہ سے لیکر پچیس فیصد تک براہِ راست ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جب تک حکومت ان براہِ راست ٹیکسوں میں کمی نہیں کرتی، بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں کو نیچے نہیں لاتی اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں کرتی موجودہ مہنگائی، غربت اور عوامی بے چینی ختم نہیں ہو سکتی۔
مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہےکہ حکومت نفرت کے آتش فشاں پر بیٹھی ہوئی ہے نہ جانے کب یہ آتش فشاں پھٹ پڑے، صرف دیا سلائی دکھانے اور کال دینے کی ضرورت ہے۔
نفسیاتی حوالے سے یہ مسئلہ توقعات کا بھی ہے۔ پی ٹی آئی نے اتنے سبز باغ دکھائے تھے، اتنے حسین خوابوں اور وعدوں کے پھول کھلائے تھے کہ غریب اور محروم طبقوں میں نئے پاکستان کی روشن امید پیدا ہوگئی تھی۔ بے انصافی، رشوت ستانی، پولیس مظالم، بہتر تعلیم اور علاج کے حوالے سے انہوں نے سہانے خواب دیکھنے شروع کر دیے تھے۔ لوٹی ہوئی دولت کو باہر سے لا کر یہاں خوشحالی بپا کرنے کے وعدے کو انہوں نے خوشحال مستقبل کی نوید سمجھ لیا تھا۔
سہانے خواب اور وعدوں کے طلسم ٹوٹنے سے ہر طرف مایوسی چھا رہی ہے۔ پونے دو برس تک حالات کو مزید بگاڑ کر اس بگاڑ کی ذمہ داری مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی پر ڈالنے کی دلیل دم توڑ رہی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن کی قوالی نے سابق حکمرانوں کیلئے ہمدردی پیدا کرنی شروع کر دی ہے۔
لوٹے ہوئے اربوں کھربوں روپوں کی ریکوری میں ناکامی نے اس ہمدردی کو مزید تقویت دی ہے۔ اس حوالے سے انتقامی کارروائیاں بھی ہمدردی کے عمل میں حصہ ڈال رہی ہیں۔
حکمران وقتی طور پر اقتدار بچانے کیلئے اتحادیوں سے معاملات طے کرنے اور دوسرے سطحی اقدامات میں مصروف ہیں جبکہ ان کو اصل خطرہ عوامی سطح پر پھیلتی ہوئی نفرت کی لہر سے ہے۔
کالم کی تنگ دامنی کے سبب میں ان عوامل کا ذکر نہیں کر سکا جنہوں نے خود عمران خان کی کریڈیبلٹی اور ایمانداری پر شکوک کی پرچھائیاں پھیلا دی ہیں۔ فی الحال تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں۔