بین المذاہب ہم آہنگی

فوٹو: فائل

بین المذاہب ہم آہنگی ہمارے معاشرے کا حساس موضوع ہے جسے کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اِس موضوع پر بات کرنے سے ہمیشہ سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔

پاکستان میں بین المذاہب قوتِ برداشت کی ضرورت تبھی محسوس ہو گئی تھی جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا اور ہندوستان سے پاکستان آنے والے مسلمانوں کو غیر مسلموں نے نشانہ بنایا تھا اور اُن کی پاک دامن خواتین کی عزتیں تار تار کی تھیں مگر ہم بین المذہب ہم آہنگی کی طرف کیا توجہ دیتے اُلٹا ملک دشمن قوتوں کی رچائی سازشوں کا نشانہ بن کر فرقوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے جس سے ایک مضبوط قوم کی تشکیل دینے کے بجائے ہم صوبائی اور لسانی تعصبات کا شکار ہو کر اپنے پاکستانی بھائیوں کا ہی خون بہاتے رہے۔

بین المذاہب ہم آہنگی قوتِ برداشت کی علامت ہے، یہ اِس بڑھتے ہوئے سیاسی اور معاشی عدم اطمینان میں مختلف مذہبی عقائد کے ماننے والوں کے مابین پُرامن بقائے باہمی، امن اور خوشحالی کے لئے آگے بڑھنے کا راستہ ثابت ہو سکتی ہے۔ 

پاکستان کی ترقی میں مذہبی تنوع اہم کردار ادا کر سکتا ہے، آج ہمیں قبولیت اور اشتراک کا پیغام تمام ہم وطنوں کے مابین پھیلانے کی ضرورت ہے، یہ ایک پُرامن اور ترقی یافتہ پاکستان کے لئے بے حد ضروری ہے۔ 

مختلف مذہبی جماعتیں اور فرقے، جو اس وقت غیروں کے دیے ہوئے زخموں کی وجہ سے منقسم ہیں، اُنہیں ساتھ ملانے کی اشد ضرورت ہے، گزشتہ چند برسوں میں رونما ہونے والے عالمی حادثات و واقعات نے مذہبی رہنماؤں کو بھی بین المذہب ہم آہنگی کی حمایت کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ 

اُنہیں اِس امر کا بخوبی ادراک ہوا ہے کہ مضبوط پاکستان کا وجود اِسی صورت عمل میں آسکتا ہے کہ جب ہم غیرمسلموں کو اپنے شانہ بشانہ کھڑا کر کے چلیں گے، پوری دنیا میں دہشت گردی کی سرگرمیوں اور کچھ دوسرے غیرانسانی حملوں نے معاشروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ 

اس صورتحال کے تحت تمام عقائد کے حامیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ رواداری، امن، صبر اور بین المذاہب ہم آہنگی کی حکمتِ عملی پر عمل کریں، پاکستان ایک کثیر المذاہب ملک ہونے کے علاوہ ایران، انڈیا، افغانستان اور چین جیسی بہت اہم اقوام کا ہمسایہ بھی ہے۔ 

وقت کی ضرورت ہے کہ ہم تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ انصاف اور یکساں سلوک کریں، کثیر مذہبی ریاست کی حیثیت سے پاکستان مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک، عدم توازن اور اُنہیں نظرانداز کرنے کا متحمل نہیں ہے۔ 

اقلیتوں کی اپنی کثیر جہتی اہمیت ہے، لہٰذا یہ نظریہ پاکستانی عوام کے تمام طبقات کو قبول کرنا چاہئے کہ بین المذاہب ہم آہنگی آبادی کے مذہبی معاملات کو مثبت طور پر ترقی دیگی جس سے اخلاقی اور مالی انقلاب آئے گا۔ 

پاکستان میں تعلیمی سیمینار، یونیورسٹیوں، میڈیا، ورکشاپس اور جلسوں کے ذریعے بین المذاہب ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دینا انتہائی ضروری ہے، اجتماعی عقل کا فقدان، مذہبی غلط فہمیوں، اقلیتوں کے لئے غیر منصفانہ انتخابی طریقہ کار، جہاد کی غلط بیانی، جزوی اور متعصبانہ مذہبی گفتگو، غیرمسلموں کی پاکستان سے ہجرت، اقلیتوں کے مقدس مقامات کا عدم تحفظ، غیرمنصفانہ سماجی و اقتصادی وسائل کی تقسیم، قومی تعلیمی نصاب میں بنیادی اسلامی مآخذ کا شامل نہ ہونا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

پاکستان متنوع ثقافتی، نسلی اور مذہبی پسِ منظر کے لوگوں کا گھر ہے، اس طرح کے تغیرات مختلف گروہوں کے مابین غلط فہمیاں اور تنازعات پیدا کرتی ہیں، چاہے وہ پورے ملک میں مسلمانوں میں فرقہ وارانہ تشدد ہو، زبان کی ہنگامہ آرائی ہو یا غیرمسلموں کے خلاف مسلسل تشدد۔

پاکستان میں بیشتر تشدد دوسرے عقائد کے بارے میں غلط فہمیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں، گزشتہ کچھ عشروں کے دوران، مذہبی رہنماؤں کے ذریعہ خصوصاً نوجوانوں میں فرقہ وارانہ تشریحات کے فروغ نے تنازعات کو جنم دیا، ایسے افراد یا گروہ پیدا ہوئے جنہوں نے دوسرے مذاہب کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ 

یہاں تک کہ ہمارا نظامِ تعلیم بھی متعصبانہ اور غلط رائے کی حمایت کرتا ہے، مثلاً جنہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی اُن کو نصاب میں شامل کرنا، اس طرح کے نصاب سے بچوں کی غیرمسلموں اور ان کے اعتقاد کی طرف امتیازی بنیاد تیار ہوتی ہے جو اُن کی باقی زندگی میں زیادہ پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ 

اس طرح کے بنیادی نظریات کو تب ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے جب ہر شخص دوسرے مذاہب کو جانتا ہو اور اپنے بنیاد پرست اقدامات کے حقیقی انجام کو سمجھتا ہو۔ 15تا 29 سال کی عمر کی نصف سے زیادہ آبادی کے ساتھ نوجوان پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی سمت تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ قائداعظم نے اسلامی اصولوں کے تحت ہی کہا تھا کہ آپ آزاد ہیں، مساجد، مندروں اور گرجا گھروں میں جانے کے لئے۔

پاکستان میں اگرچہ بعض اوقات انسانی حقوق کی صورتحال غیریقینی ہو جاتی ہے، اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ متفقہ آئینِ پاکستان کے بعد تمام مسالک کی جانب سے متفقہ فتویٰ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ جس پر 1800 علماء و مشائخ کے دستخط ہو چکے ہیں، کو آئینی حیثیت دینے کے لئے قومی اسمبلی سے بھی منظور کروایا جائے اور پھر اس پر سختی کی مضبوط بنیادوں کو تھام کر من و عن عمل کروایا جائے۔ 

میں ادارہ آئی ڈی ای اے کے انچارج اور اپنے بھائی سلمان عابد اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے طلباء و طالبات سے مخاطب ہونے اور اُن کے سوالات کے جوابات دینے کا موقع دیا۔

مزید خبریں :