کیماڑی میں مبینہ زہریلی گیس کی وجہ سویابین ڈسٹ نہیں ہوسکتی: پروفیسر ندیم

معروف ماہر امراض سینہ پروفیسر ڈاکٹر ندیم احمد رضوی—جیو نیوز فوٹو

معروف ماہر امراض سینہ پروفیسر ڈاکٹر ندیم احمد رضوی نے کیماڑی میں مبینہ زہریلی گیس کی وجہ سویابین ڈسٹ ہونے کی تردید کردی۔ 

کیماڑی میں زہریلی گیس سے ہلاک افراد کے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال مکمل کرلی گئی ہے جس کے بعد ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کمیسٹری ڈیپارٹمنٹ جامعہ کراچی نے رپورٹ تیار کر کےکمشنر کراچی کو ارسال کردی ہے۔

 سندھ حکومت کے ترجمان و وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے قانون و ماحولیات مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ کیماڑی کے واقعے پر جامعہ کراچی کے ماہرین نے رپورٹ جمع کرادی جس کے مطابق واقعہ سویابین ڈسٹ کی وجہ سے پیش آیا۔

تاہم اس کی تردید کرتے ہوئے معروف ماہر امراض سینہ پروفیسر ڈاکٹر ندیم احمد رضوی نے کہا ہے کہ سویا بین ڈسٹ (دھول) سے الرجی، دمہ اور ناک کی الرجی تو ہو سکتی ہے لیکن فوراً موت واقع نہیں ہوسکتی، اس سے موت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔

 انہوں نے جامعہ کراچی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کی رپورٹ پر حیرت کا اظہار کیا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کیماڑی میں متعدد ہلاکتیں اور سیکڑوں افراد متاثر ہونے کی وجہ سویا بین ڈسٹ ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ سویا بین ڈسٹ عموماً الرجی اور دمے کا باعث بنتی ہے جنہیں بہت آسانی سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے یک دم اور اتنی زیادہ ہلاکتیں نہیں ہو سکتیں، اس لیے اس کا درست انداز میں جائزہ لینا چاہیے ۔

ڈاکٹر ندیم نے سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی جانب سے ہائیڈروجن سلفائیڈ کو وجہ قرار دینے پر بھی سوال اٹھایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہائیڈروجن سلفائیڈ کی بو بہت زیادہ ہوتی ہے جو ایک سڑے ہوئے انڈے جیسی ہوتی ہے جو گٹر میں  پائی جاتی ہے اس گیس سے اکثر وبیشتر خاکروبوں کی حالت غیر ہونے کے واقعات سامنے آتے ہیں، اگر یہ ہائیڈروجن سلفائیڈ ہوتی تو اس کی بوباآسانی آجاتی، اس لیے اس معاملے میں ہائیڈروجن سلفائیڈ کی موجودگی کے امکانات بہت کم ہیں ۔

ماہر امراض  نے مزید کہا کہ ایک اور زہریلی گیس متھین سلفائیڈ کے متعلق بھی سننے میں آرہا ہے کہ شاید اس کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئی ہیں، متھین سلفائیڈ عموماً فیومیگیشن کے لیے استعمال ہوتی ہے لیکن یہ بہت زیادہ زہریلی گیس ہوتی ہے اوراس سے اوزون لیئر بھی متاثر ہوتی ہے اس لیے بہت سارے ملکوں  میں اس پرپابندی ہے، پاکستان میں شاید اس پر پابندی نہیں اور استعمال شدہ کپڑوں پر اسے استعمال کیا جاتا ہے اس لیے اس کو بھی چیک کرنا چاہیے ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں ہزاروں اقسام کی زہریلی گیسز ہیں اور دنیا بھر کے ممالک میں ایسے ادارے موجود ہیں جو ہوا کے معیار کی نگرانی ( کوالٹی آف ایئر مانیٹر) کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ فضا میں کس گیس کا لیول زیادہ یا کم ہوگیا ہے، پاکستان میں بھی ایسے ادارے ہوں گے جنہیں آگے آنا چاہیے اور اس پریشانی کو ختم کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہوا میں گیسز کی مقدار کو چیک کرنے کے لیے ملٹی گیسز ڈی ٹیک ٹر بھی ہوتے ہیں جن سے گیسز کا پتہ لگایا جاسکتا ہے، اگر کہیں سے کوئی گیس خارج ہو رہی ہے تو معلوم کرنا اتنا مشکل کام نہیں اس کے لیے ڈی ٹیکٹرز سے کام لیاجانا چاہیے۔

خیال رہے کہ اتوار کی شام سے کیماڑی میں مبینہ زہریلی گیس کے اخراج سے اب تک 14 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔

مبینہ زہریلی گیس سے علاقے کے سیکڑوں افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں سے اکثر اب بھی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں جبکہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے اسپتال میں 10 افراد کی حالت تشویشناک ہے۔

مزید خبریں :