19 فروری ، 2020
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت میں فل کورٹ بینچ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان کو سپریم کورٹ کے ججز پر لگائے گئے الزام کا تحریری ثبوت دینے یا معافی مانگنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر جج جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئینی درخواست کی سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کی آئینی درخواست کی 30 ویں سماعت کے دوران عدالت نے سولات کے جوابات نہ ملنے پر اٹارنی جنرل انور منصور خان سے کہا کہ بس بہت ہوگیا، یہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے، بغیر تیاری کیے دلائل دے کر ہمارا وقت ضائع نہ کریں، ہم عدالت سے اٹھ کر جارہے ہیں۔
بینچ کے سربراہ کا کہنا تھاکہ صدارتی ریفرنس کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کو قانونی طور پر ثابت کرنا ہوگا کہ بیوی بچوں کی بیرونی ملک جائیداد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کوظاہر کرنا لازم تھا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ مقدمے کے حوالے سے آپ کی کوئی تیاری نہیں ہے، یہ صدارتی ریفرنس کا مقدمہ ہے یا ایف آئی آر؟ صدارتی ریفرنس ٹھوس مواد پر مشتمل ہونا چاہیے، ہم 6 ماہ سے اس مقدمے کو سن رہے ہیں، آپ بغیر تیاری کے دلائل دے رہے ہیں۔
اس دوران بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل سے کہاکہ آپ قانونی حوالہ دے رہے ہیں نہ ہی مرکزی مقدمے پر بات کر رہے ہیں، ہمارا وقت ضائع نہ کریں، ریفرنس کو برقرار رکھنے کے لیے قانونی طور پر ثابت کریں۔
اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ ہمارے سوالات کا جواب دینے کے علاوہ باقی سب باتیں کررہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ میں آپ کے سوالات کا جواب دوں گا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمیں آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔
اٹارنی جنرل نے جواب میں کہاکہ میرا دلائل دینے کا یہی انداز ہے۔
درخواست کی سماعت میں عدالت نے اٹارنی جنرل انور منصور کے گزشتہ روز ججوں پر الزام کو شائع کرنے سے میڈیا کو روک دیا تھا مگر سماعت کے بعد عدالتی حکم میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے گزشتہ روز لگایا گیا الزام کسی جج پر نہیں بلکہ پورے ادارے پر تھا۔
حکم میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل سپریم کورٹ ججز پر لگائے گئے الزام کا تحریری ثبوت دیں یا معافی مانگیں۔
دوسری جانب پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار نے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون فروغ نسیم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست جمع کرانے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
جسسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئینی درخواست کی مزید سماعت پیر کو ہو گی۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔
پہلے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا۔ صدارتی ریفرنسز پر سماعت کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب کا جواب الجواب کونسل کے اجلاس میں جمع کرا دیا ہے، کونسل اٹارنی جنرل کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کرے گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس کو کونسل نے خارج کردیا تھا۔
خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کی جانب سے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیا گیا اور اس پر فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔