28 جنوری ، 2020
سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطابندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ جج شیشے کے گھر میں رہتا ہے اور جج سمیت کوئی بھی احتساب سے بالا نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر دائر آئینی درخواستوں کی سماعت جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کی۔
سینئیر وکیل رشید اے رضوی نے سندھ ہائی کورٹ بار کی طرف سے دلائل مکمل کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اقدام سمری انکوائری اور جاسوسی پر مبنی ہے، قاضی فائز 12 مئی سانحے میں عدالتی معاون تھے جبکہ جسٹس کے کے آغا نے فیصلہ دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ فروغ نسیم اس وقت ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور آج وزیر قانون ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ جج شیشے کے گھر میں رہتا ہے، جج بھی قابل احتساب ہے، موبائل فون سب سے بڑا جاسوس ہے، ٹیکنالوجی نے ہر چیز کو بدل دیا ہے۔
اس پر وکیل رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ شیشے کا یہ گھر بلٹ پروف ہونا چاہیے۔
جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ٹیکس کا نہیں ہے، مس کنڈکٹ کا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل ذرائع آمدن کو دیکھ رہی ہے
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں، جج کے خلاف اقدام آئین اور قانون کے تحت ہونا چاہیے۔
پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جج کو ڈیو پراسس کا اتنا ہی حق ہے، جتنا کسی عام شہری کو، اور یہ عدلیہ کے وقار اور آزادی کا معاملہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ نے جج کو حاصل آئینی تحفظ کی خلاف ورزی کر کے مواد حاصل کیا، اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ایسی انکوائری کے ذریعے ملزم نہیں بنایا جاسکتا۔
بعد ازاں عدالت نے درخواستوں پر مزید سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کر دی۔
خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کی جانب سے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیا گیا اور اس پر فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔
پہلے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا۔ صدارتی ریفرنسز پر سماعت کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب کا جواب الجواب کونسل کے اجلاس میں جمع کرا دیا ہے، کونسل اٹارنی جنرل کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کرے گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس کو کونسل نے خارج کردیا تھا۔
خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کی جانب سے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیا گیا اور اس پر فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔