Time 24 فروری ، 2020
دنیا

دہلی میں متنازع قانون کیخلاف احتجاج، پولیس اہلکار سمیت 4 افراد ہلاک

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے سے قبل انتہاپسند آپے سے باہر ہوگئے اور متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پِل پڑے۔

گزشتہ روز سے دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں شروع ہونے والی جھڑپوں میں آج اُس وقت تیزی آئی جب متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر مختلف علاقوں میں وزیراعظم نریندر مودی کے حامیوں نے حملے کیے۔

شمال مشرقی دہلی کے جعفرآباد اور موج پور سمیت مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین نے متعدد دکانوں، مکانات، گاڑیوں اور فائرٹینڈر کو آگ لگادی۔

انتہاپسندوں کی جانب سے پرامن مظاہرین پر فائرنگ اور پتھراؤ کیا گیا جس کے نتیجے میں اب تک ایک پولیس کانسٹیبل سمیت 4 افراد ہلاک ہوئے جبکہ پرتشدد واقعات میں 50 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں پولیس و سیکیورٹی اہلکار  اور ڈپٹی کمشنر بھی شامل ہیں۔

جاں بحق پولیس اہلکار کی شناخت رتن لال اور ایک شہری کی فرقان کے نام سے ہوئی ہے جبکہ دیگر دو افراد کی شناخت نہیں ہوئی۔

پولیس نے دہلی پولیس ہیڈکوارٹر کے باہر احتجاج کرنے والے متعدد طلبہ کو بھی گرفتار کیا تھا تاہم بعدازاں انہیں رہا کردیا گیا۔ 

دہلی پولیس انتہاپسندوں کے ساتھ مل گئی

سوشل میڈیا پر کئی ویڈیو وائرل ہورہی ہیں جس میں انتہاپسندوں کی جانب سے پرامن مظاہرین اور پولیس پر فائرنگ کی گئی ہے۔

کئی ویڈیوز میں مظاہرین کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ دہلی پولیس نے انتہاپسندوں کو نہ صرف پر امن مظاہرین پر فائرنگ کی اجازت دی بلکہ کئی املاک کو بھی خود نذرآتش کیا۔

ہنگاموں کے بعد شمال مشرقی علاقوں میں میٹرو اسٹیشنز بھی بند کردیے گئے ہیں جس سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

دوسری جانب دہلی پولیس نے شمال مشرقی علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کردی ہے اور ساتھ ہی امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی ہے جس میں 2 ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف) اور خواتین فورس کی ایک کمپنی شامل ہے۔

شمال مشرقی دہلی کے تمام اسکولز بند کرنے کا اعلان

اُدھر دہلی کے وزیرتعلیم نے شمال مشرقی علاقوں کے تمام اسکولز بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

منیش سیسوڈیا کا کہنا ہے کہ کشیدہ حالات کے باعث بورڈ کے امتحانات منسوخ کردیے گئے اور کل تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔

مسلمان نوجوان پر تشدد کی تصاویر وائرل

علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر انتہا پسندوں کے جھتے کی مسلمان نوجوان پر تشدد کی تصویر تیزی سے وائرل ہورہی ہے۔

رائٹرز کے مطابق دہلی کے علاقے چاند باغ میں لاٹھیوں سے مسلح جتھہ ایک مسلمان نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنارہا ہے اور وہ نوجوان  خون میں لت پت ہے۔

تصویر پر رائٹرز کا لوگو بھی ہے جس کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ یہ تصویر ایجنسی کے مقامی فوٹو گرافر دانش صدیقی نے لی ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے بھی مسلمان نوجوان پر تشدد کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے مشہور نظم کا حوالہ دیا۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پرتشدد واقعات کی مذمت

بھارتی اپوزیشن کی جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے دہلی واقعات کی سخت مذمت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج بہترین جمہوریت کی علامت ہیں لیکن تشدد کسی صورت قابل قبول نہیں۔

کانگریس کے ایک اور رہنما  نے پرتشدد واقعات کا ذمہ دار  دہلی پولیس کو قرار دیا ہے۔

پرتشدد واقعات کے باوجود متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج جاری

دہلی کے علاقے جعفر آباد میں پرتشدد واقعات کے باوجود متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ 

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق شمال مشرقی دہلی کے علاقے جعفر آباد کے میٹرو اسٹیشن کے باہر اب بھی خواتین کا شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ 

احتجاج میں خواتین کی بڑی تعداد شریک ہے جبکہ اس دوران سیکیورٹی کے بھی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو روزہ دورے پر بھارت پہنچے ہیں جہاں وہ سب سے پہلے احمد آباد اور پھر آگرہ گئے تھے، اب وہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی پہنچ چکے ہیں۔

متنازع شہریت کا قانون

11 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ نے شہریت کا متنازع قانون منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔

اس قانون کے ذریعے بھارت میں موجود بڑی تعداد میں آباد بنگلا دیشی مہاجرین کی بے دخلی کا بھی خدشہ ہے۔

بھارت میں شہریت کے اس متنازع قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ احتجاج میں شریک ہیں۔

پنجاب، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش سمیت کئی بھارتی ریاستیں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ سے انکار کرچکی ہیں جب کہ بھارتی ریاست کیرالہ اس قانون کو سپریم کورٹ لے گئی ہے۔

مزید خبریں :