26 فروری ، 2020
دسمبر2019 کو چین کے صوبے ہوبئی کے مرکزی شہر ووہان میں ایک پراسرار بیماری پھیلی جسے دنیا نے کورونا وائرس کا نام دیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیماری وبائی صورت اختیار کر گئی اور ہلاکتیں ایک ہزار تک پہنچیں تو عالمی ادارہ صحت نے اس موذی مرض کو کووڈ 19 کا نام دے دیا۔
پراسرار وبا کی وجوحات تک پہنچنے میں طبی ماہرین تاحال ناکام ہیں جس نے عالمی ادارہ صحت کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی ٹیمیں بیماری کی وجوہات جاننے کے لیے چین میں موجود ہیں جب کہ دو ادویہ کی آزمائشی جانچ بھی شروع کر دی گئی ہے جن کے نتائج سامنے آنے میں ابھی تین ہفتے درکار ہیں۔
یہ وبا ووہان میں تیزی سے پھیلنے لگی تو چینی حکام نے فوری طور پر اس بات کا ادراک کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر 1000 بستروں پر مشتمل اسپتال قائم کیا اور پورے صوبے کو قرنطینہ (طبی ایمرجنسی) نافذ کر دی تاکہ بیماری دیگر شہروں میں نہ پھیل سکے، چین اس بیماری کو تو کسی حد تک دوسرے شہروں تک پھیلنے سے روکنے میں کامیاب ہو گیا لیکن ووہان میں ہلاکتوں کا سلسلہ تادم تحریر تھم نہ سکا اور چین کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 2600 سے زائد افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں جب کہ متاثرین کی تعداد 77 ہزار سے بھی زائد ہے۔
جاپان، آسٹریلیا، ویتنام، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، اٹلی، اسرائیل، اردن، بحرین، کویت، افغانستان اور ایران سمیت دنیا کے 30 سے زائد ممالک میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے لیکن چین کے بعد سب سے زیادہ مریض جنوبی کوریا اور ایران میں سامنے آئے ہیں۔
ایران کے تاریخی شہر قم میں کورونا وائرس کے باعث 50 افراد کی ہلاکت اور 250 افراد کو قرنطینہ میں رکھے جانے کی اطلاعات ہیں۔
پاکستان اور ایران کی سرحد سے روزانہ کی بنیاد پر 300 سے 500 افراد کی آمدورفت ہوتی ہے۔
امریکی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ ایران میں 13 فروری کو کورونا وائرس سے ہلاکتیں سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں لیکن ایرانی حکومت نے 19 فروری کو اس بات کی تصدیق کی۔
امریکی میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایرانی حکام کی جانب سے جتنی اموات کی تصدیق کی جا رہی ہے صحیح تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
ایران کی جانب سے کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد حکومت پاکستان نے فوری طور پر ایران سے ملحقہ تفتان سرحد پر تو اقدامات کر لیے لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے 13 فروری سے لیکر 22 فروری تک سیکڑوں لوگ ایران سے پاکستان میں داخل ہو چکے ہوں گے، ان لوگوں سے کیسے رابطہ کیا جائے گا اور انھیں کس طرح چیک کیا جائے گا۔
ایرانی حکومت نے تو کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے اقدامات شروع کر دیئے ہیں اور وہاں کی حکومت سے اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی توقع بھی کی جا سکتی ہے۔
لیکن دو دہائیوں سے جنگ کے شکار ملک افغانستان کے شہر مزار شریف میں کورونا وائرس کی تصدیق نے پاکستان کے لیے مشکلات مزید بڑھا دی ہیں۔
پاکستان کی شمال میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے افغانستان کے ساتھ تقریباً 2611 کلو میٹر طویل سرحد ہے اور دونوں ممالک کے درمیان آمدورفت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ شمال میں کشمیر اور گلگت کے ساتھ پاکستان کی سرحد چین سے ملتی ہے جس کی لمبائی تقریباً 600 کلو میٹر ہے۔
اسی طرح مغرب میں پاکستان کی ایران کے ساتھ سرحد 959 کلو میٹر بنتی ہے جب کہ مغرب میں بھارت ہے جہاں ابھی تک کورونا وائرس کا کوئی مریض تو سامنے نہیں آیا ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیر کو لیکر تنازع 1948 سے چلا آ رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان بھی سندھ، پنجاب اور کشمیر پر تقریباً 3000 کلو میٹر طویل سرحد ہے۔
کورونا وائرس نے جہاں ہزاروں انسانی جانوں کو نگل لیا ہے وہیں امریکا اور جاپان سمیت دنیا بھر کی معیشت کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔
پاکستان میں اب تک کورونا وائرس کے کسی کیس کی تصدیق تو نہیں ہو سکی ہے لیکن چین کے بعد ایران اور افغانستان میں سامنے آنے والے کیسز نے پاکستانی شہریوں میں خوف کی فضا قائم کر دی ہے کیونکہ ان تینوں ممالک کے ساتھ پاکستان کی طویل سرحدیں ملتی ہیں اور ہزاروں افراد کی آمدروفت بھی ہوتی ہے۔
اگر اس ساری صورت حال کو آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو پاکستان کے شمال اور مغرب میں واقع ممالک کورونا وائرس کا شکار ہیں جب کہ مشرق میں پاکستان کا دشمن اور جنوب میں بحیرہ عرب ہے، یعنی پاکستان چاروں طرف سے گھر چکا ہے اور دوسرے ممالک کے رحم وکرم پر ہے۔