28 فروری ، 2020
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ پاکستان کے لیے بہت بڑا اعزاز اور امن کوششوں کا اعتراف ہے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی قطر کی دعوت پر امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کے لیے دوحہ میں موجود ہیں۔
اس حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ امید ہے کل (29 فروری) کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے اور تقریب میں مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سمیت 50 ملکوں کے نمائندے شریک ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کے لیے بہت بڑا اعزاز اور پاکستان کی کوششوں کا اعتراف ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت نے پوری کوشش کی کہ افغان امن معاہدے میں رکاوٹیں کھڑی ہوں، پاکستان کا تشخص ابھر رہا ہے اور بھارت کا نیچے جا رہا ہے۔
بعدازاں دوحہ میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ امریکا اور طالبان امن معاہدے سے افغانستان اورپاکستان کوہی فائدہ نہیں بلکہ پورا خطہ مستفید ہوگا، جب امن و استحکام ہوگا تو تعمیر و ترقی کے نئے راستے کھلیں گے اور جب امن و استحکام ہوگا تو دو طرفہ تجارت کے فروغ کیلئے مواقع میسرآئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن سےتوانائی کے حصول میں مدد ملے گی، ہم کاسا 1000 منصوبے سے استفادہ حاصل کر سکیں گے، افغانستان میں قیام امن سے ہمارے وسط ایشیا سے روابط بحال ہوں گے اور ہمیں پن بجلی کی صورت میں سستی بجلی میسر آسکے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیام امن سے ہمارا مستقبل جڑا ہوا ہے، جب ہم کہتے تھےکہ افغان مسئلے کو مذاکرات سے حل کرنا ہوگا تو تمسخر اڑایا جاتا تھا، کل امن معاہدے پر دستخط کے بعد اس خواب کو تعبیر ملنے والی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں کو خود کرنا ہے، انہیں یہ بھی خود طےکرنا ہے کہ وہ مستقبل کا کیا منظر نامہ ترتیب دینا چاہتے ہیں، ہمارے پڑوس اور افغانستان میں ایسے عناصر موجود ہیں جن کو امن معاہدہ ہضم نہیں ہوگا۔
خیال رہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ممکنہ طور پر 29 فروری کو تاریخی امن معاہدہ خلیجی ملک قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوگا جس میں کئی ممالک اور عالمی تنظیموں کے نمائندے شرکت کریں گے۔
اِس وقت امریکا اور افغان طالبان کے درمیان 22 فروری سے اعتماد سازی کی بحالی کے لیے پرتشدد کارروائیاں روکنے کے وعدے پر عمل جاری ہے۔
امریکا نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد 2001 میں افغانستان پر چڑھائی کی تھی اور وہاں تقریباً 19 سال سے جنگ جاری ہے جس میں لاکھوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب کی مہم میں افغان جنگ کے خاتمے اور امریکی فوجیوں کے انخلاء کا وعدہ کیا تھا۔
گذشتہ ایک سال سے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے جس کے ذریعے امریکا اپنی طویل ترین جنگ سے چھٹکارہ چاہتا ہے۔
اس دوران امن مذاکرات کے متعدد دور چل چکے ہیں اور ستمبر 2019 میں فریقین معاہدے کے قریب بھی پہنچ گئے تھے تاہم کابل حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہونے کے بعد مذاکرات میں تعطل آگیا تھا۔
اس حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں سے طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کردی تھی۔
بعد ازاں دسمبر 2019 میں مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا لیکن بگرام ائیر بیس پر ہونے والے حملے کے بعد مذاکرات پھر معطل ہوگئے تاہم یہ مذاکرات ایک بار پھر شروع ہوئے جو نتیجہ خیز ہونے کے قریب ہیں۔