Time 29 فروری ، 2020
دنیا

امریکا طالبان امن معاہدے میں کیا طے ہوا ہے؟

امریکا نے اپنی تاریخ کی طویل ترین 18 سالہ جنگ سے نکلنے کے لیے افغان طالبان سے معاہدہ کرلیا ہے۔

قطرکے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی تقریب میں میں افغان طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی برادر اور امریکاکی جانب سے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے معاہدے پر دستخط کیے۔

فریقین کے درمیان ہونے والا وسیع البنیاد معاہدہ4 نکات پر مشتمل ہے۔

  1. دوحہ معاہدے کی پہلی شق کے مطابق افغان سرزمین کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کسی بھی شخص یا گروہ کی جانب سے استعمال ہونے سے روکنے کی ضمانت دینے کے ساتھ اس کا طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔
  2. دوسری شق کے مطابق معاہدے پر عملدرآمد کی ضمانت، طریقہ کار اور غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انحلاء کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔
  3. تیسری شق میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے اعلان کے بعد بین الاقوامی گواہوں کی موجودگی میں (طالبان کو) ضمانت دینا ہوگی کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، جب کہ 10 مارچ 2020  یا 15 رجب کو امارت اسلامیہ افغانستان جسے امریکا ریاست کی حیثیت سے قبول نہیں کرتا اور جو افغان طالبان کہلائے جاتے ہیں، افغانستان کے اندر بین الافغان مذاکرات کا آغاز کریں گے۔
  4. معاہدے کی آخری شق کے مطابق بین الافغان مذاکرات کے ایجنڈے میں مکمل جنگ بندی بھی شامل ہوگی اور بین الافغان مذاکرات میں شامل فریقین جنگ بندی کی تاریخ کے ساتھ اس کے مشترکہ عملدرآمد کے طریقہ کار پر بھی بات کریں گے جس کا اعلان مذاکرات کی تکمیل کے بعد افغانستان کے سیاسی مستقبل کے لائحہ عمل کے ساتھ کیا جائے گا۔

معاہدے کے چاروں نکات ایک دوسرے سے منسلک ہیں اورمعاہدے کے آخردی دو نکات پہلے دو نکات پر عمل درآمد سے مشروط ہیں جس پر فریقین کی جانب سے آمادگی بھی ظاہر کی گئی ہے۔

معاہدے کے چاروں نکات ایک دوسرے سے منسلک ہیں،فوٹو:جیو نیوز 

معاہدے کے تحت افغان طالبان کو اپنے زیر اثر علاقوں میں اس معاہدے پر اس وقت تک عمل کرنا ہوگا جب تک کہ بین الافغان مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے ہونے والے تصفیے کے تحت افغانستان میں ایک مستحکم اسلامی حکومت قائم نہیں ہوجاتی۔

اس کے علاوہ معاہدے کا اطلاق فوری طور پر ہوگا، 14 ماہ میں تمام امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوگا، ابتدائی 135 روز میں امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کی تعداد بھی اسی تناسب سے کم کی جائے گی۔

معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا جائے گا۔ 10 مارچ 2020 تک طالبان کے 5 ہزار قیدی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کیا جائے گا اور اس کے فوراً بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔

معاہدے کے مطابق امریکا طالبان پر عائد پابندیاں ختم کرے گا اور اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں ختم کرنے پر زور دے گا۔

معاہدے کے تحت افغان طالبان اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کیخلاف استعمال نہ ہو۔

خیال رہے کہ نائن الیون واقعے کے چند ہفتے بعد امریکا نے ستمبر 2001 میں افغانستان پر حملہ کردیا تھا۔ اب تک اس جنگ میں 2400 سے زائد امریکی فوجی مارے جاچکے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں اس وقت تقریباً 14 ہزار کے قریب امریکی فوجی اور 39 ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو کے 17 ہزار کے قریب فوجی موجود ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد افغان جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

دوحہ کے مقامی ہوٹل میں ہونے والی تقریب میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت 50 ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے۔

تقریب سے خطاب میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکااورطالبان دہائیوں سےجاری تنازعات کوختم کررہےہیں۔

امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ اس معاہدے سے افغانستان میں امن قائم ہوگا، اگر طالبان نے امن معاہدے کی پاسداری کی تو عالمی برادری کا رد عمل مثبت ہوگا۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکا طالبان مذاکرات کو کامیاب بنانے پر پاکستان کے شکر گزار ہیں، اسے کسی کی فتح قراردینا مناسب نہ ہوگا، افغانوں کی فتح اس وقت ہوگی جب وہ امن اورخوشی سے رہ سکیں گے۔

تقریب سے خطاب میں قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی بردار نے کہا کہ اسلامی امارات امریکا کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کا عزم کیے ہوئے ہے۔

ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ ہم تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں، تمام افغان گروپس کو کہتا ہوں کہ ایک مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اکٹھے ہوں۔

مزید خبریں :