04 مارچ ، 2020
کیا افغانستان میں امن آگیا اور اس امن سے پاکستان بھی مستفید ہونے لگا؟ نہیں۔ کیا افغانستان میں نائن الیون کے بعد بےگناہ شہید ہونے والے افغان یا پھر پاکستان میں 70 ہزار کے قریب شہید ہونے والے بےگناہ پاکستانی دنیا میں واپس آگئے؟ نہیں۔ اچھا تو کیا امریکا افغانستان سے اسی طرح مکمل نکل گیا جس طرح کہ سوویت یونین نکل گیا تھا اور یہاں سے نکلنے کے بعد امریکا کے اسی طرح ٹکڑے ہو گئے جس طرح کہ سوویت یونین کے ہو گئے تھے؟ نہیں۔
تو پھر یہ پاکستان کے مذہبی سیاستدان اور دانشور کس جیت کا جشن منا رہے ہیں؟ قطر ڈیل کے بعد ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ 19 سال تورا بورا کے محاذ پر جنگ کی قیادت کرتے ہوئے گزارے، جیسے طالبان نے یہ جنگ ملا عمر، ملا اختر منصور اور ملا ہیبت اللہ کی قیادت میں نہیں بلکہ سراج الحق صاحب کی قیادت میں لڑی اور جیسے جنرل حمید گل مرحوم پنڈی میں نہیں بلکہ قندھار میں طالبان کی قیادت کرتے ہوئے شہید ہوئے اور مولانا سمیع الحق مرحوم جلال آباد کے محاذ پر امریکی افواج کے خلاف فدائی حملہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
حیرت کی بات ہے کہ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیمیں بھی طالبان کے فوٹیجز کے ساتھ فتح کے ترانے بنا کر جشن منارہی ہیں حالانکہ جماعت اسلامی نے زیادہ جشن گلبدین حکمتیار اور برہان الدین ربانی کی فتح پر منایا تھا اور یہ طالبان امریکا یا روس کو تباہ کرنے نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے ان پیارے مجاہدین سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے میدان میں آئے تھے۔
ہم جسے افغان حکومت کہتے ہیں اور طالبان جسے کٹھ پتلی حکومت کہہ کر اس کے خلاف لڑ رہے ہیں، اسی حکومت کے ساتھ ڈیل کرکے جماعت اسلامی کے ہیرو گلبدین حکمتیار کابل کے سیاسی نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب ہم حیران ہیں کہ گلبدین اور ربانی کی فتح بھی جنرل حمید گل اور ہمارے مذہبی لیڈروں کی فتح ہوتی ہے اور ان کے دشمن طالبان کی فتح بھی ان کی فتح ہے۔
مجاہدین کی فتح بھی پاکستان کی پالیسی کی کامیابی ہوتی ہے اور مجاہدین کے دشمن نمبرون طالبان کی فتح بھی پاکستان کی پالیسی کی کامیابی ہوتی ہے۔ آخر حد ہوتی ہے۔ اوپر سے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کریڈٹ لینے کے چکر میں اپنا فلسفہ جھاڑنے لگے ہیں حالانکہ امریکا طالبان ڈیل کے عمل سے ان دونوں کا اتنا ہی واسطہ تھا جتنا کہ اشرف غنی اور ان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ قطر ڈیل امریکا کی فتح ہے اور نہ طالبان کی۔ فتح وہ ہوتی ہے کہ جس میں اپنے موقف کو آپ منوا لیں۔ یہ فتح نہیں بلکہ ڈیل ہے جس میں دونوں فریقوں نے اپنے اپنے حصے کی حقیقت تسلیم کر لی ہے اور دونوں ماضی کے موقف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
امریکا اگر نائن الیون سے پہلے یا بعد میں جنگ کی بجائے سفارتی اور مالی سفارتکاری سے کام لیتا تو لاکھوں افغانوں اور اپنے ہزاروں فوجیوں کو مروائے بغیر طالبان سے یہ باتیں منوا سکتا تھا جو آج منوائیں لیکن تب وہ طاقت کے غرور میں مبتلا تھا۔ وہ طالبان کو کچلنا چاہتا تھا۔ آج اس نے طالبان کو ایک سیاسی حقیقت مان کر اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہوئے طالبان سے یہ بات منوالی۔ یوں یہ امریکا کی پسپائی ہے ۔ اسی طرح طالبان سے تب امریکا اور دنیا کا مطالبہ یہ تھا کہ وہ القاعدہ سے اپنا تعلق توڑیں لیکن تب وہ کہہ رہے تھے کہ یہ ان کے ایمانی اور پختون غیرت کے منافی ہوگا۔
آج انہوں نے یہ لکھ کر دیا کہ وہ القاعدہ اور اسی طرح کی تنظیموں سے تعلق نہیں رکھیں گے۔ یہ طالبان کی پسپائی ہے۔ پاکستان میں جو لوگ قطر معاہدے کو عظیم فتح قرار دے کر جشن منارہے ہیں یہی لوگ ماضی میں ملاعمر کو کم اور اسامہ بن لادن کو زیادہ ہیرو کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ اب طالبان نے ان کے ہیرو سے ناطہ توڑ دیا لیکن پھر بھی طالبان ان کے ہیرو ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ نائن الیون کے بعد القاعدہ سے ناطہ نہ توڑ کر طالبان نے افغانستان اور پاکستان کے لئے اور خود اپنے لئے ایسی جنگوں کو دعوت دی جس میں نہ صرف ان کی حکومت ختم ہوئی بلکہ خود ان کے دو امیر المومنین بھی ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ اعلانیہ طور پر ان کا جنازہ بھی نہیں پڑھایا جاسکا۔
جشن منانے والے پاکستان کے مذہبی سیاستدانوں، دانشوروں اور ریٹائرڈ جرنیل صاحبان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ امریکی افواج کا انخلا بین الافغان مذاکرات کی کامیابی اور کئی دیگر اقدامات سے مشروط ہے۔ ان شرائط کا پورا ہونا اتنا آسان نہیں۔ لکھ کر رکھ لیجئے کہ امریکی مکمل طور پر افغانستان سے نہیں نکلیں گے۔ اگر بین الافغان مذاکرات کامیاب ہوئے اور طالبان افغان حکومت کا حصہ بن بھی گئے تو امریکیوں کو مکمل انخلا کا نہیں کہا جائے گا کیونکہ افغانستان کو چلانے کے لئے پیسے کی ضرورت ہوگی جو امریکا کے سوا کوئی ملک نہیں دے سکتا۔
یاد رکھئے کہ وہ حکومت جس میں طالبان حصہ دار ہوں گے بھی امریکا کی دوست اور اس کے زیر اثر ہوگی کیونکہ افغانستان میں پیسہ چلتا ہے اور پیسہ امریکا کے پاس زیادہ ہے۔ آپ سب کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ جہاں اس بات کا امکان ہے کہ بین الافغان مذاکرات کامیاب ہوں، وہاں اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ معاملہ ایسے بگڑ جائے کہ ہم ماضی کے تمام بگاڑ بھول جائیں۔ خاکم بدہن اگر معاملہ بگڑ گیا تو پھر افغانی اپنے ملک میں اس بگاڑ کے لئے پاکستان کو ماضی سے بھی زیادہ موردالزام ٹھہرائیں گے۔
یاد رکھئے کہ اب اگر امریکا ایک بار پھر لڑنے پر آگیا تو پھر کیا ہمارے لوگ یہ عذر پیش کرسکیں گے کہ ہمارا تو طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے کریڈٹ لینے کے چکر میں ذرا احتیاط برتنی چاہئے اور مفت میں طالبان کے مامے چاچے بن کراپنی اور خود طالبان کی مشکلات کو بڑھانے سے گریز کرنا چاہئے۔
باقیوں کی حماقتیں تو سمجھ میں آتی ہیں لیکن نہ جانے یہ شاہ محمود قریشی کو کیا ہو گیا جو کریڈٹ لینے کے چکر میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے طالبان ان کی ایک جیب اور امریکی دوسری جیب میں پڑے تھے جو عمران خان صاحب کی میز پر رکھ کر انہوں نے ایک دوسرے سے بغل گیر کرائے۔
لاکھوں افغان اور ستر ہزار پاکستانی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ افغانستان تو کیا، پاکستان بھی بیس سال دہشتستان بنا رہا لیکن ہم پھر بھی سینہ تان کر کہہ رہے ہیں کہ کوئی بات نہیں۔ امریکا کو نکلنے پر مجبور تو کیا حالانکہ ابھی جنگ ختم ہوئی ہے، طالبان حکمران بنے ہیں اور نہ امریکی نکلے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔