19 فروری ، 2020
افغانستان میں دائمی امن قائم ہوتا ہے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زلمے خلیل زاد کو جو ٹاسک سونپا تھا، وہ اسے حاصل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
طالبان کے ساتھ زلمے خلیل زاد کا معاہدہ تقریباً ہو گیا ہے۔ جو کچھ طے پایا ہے اس کی رو سے طالبان آٹھ دس دن کے لئے جنگ بندی کریں گے۔ اس مدت کی تکمیل کے بعد معاہدے پر دستخط ہوں گے اور دس دن کے اندر بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے۔ افغان حکومت کی تحویل میں طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہوگا جب کہ بین الافغان مذاکرات کی پیش رفت کے ساتھ امریکی افواج کے انخلا کے عمل کا آغاز ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ جو ٹارگٹ اس سے قبل رچرڈ ہالبروک اور دیگر امریکی نمائندے حاصل نہیں کر سکے، وہ زلمے خلیل زاد نے کیسے حاصل کرلیا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ ماضی کے خصوصی نمائندے اس لئے کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ امریکی صدر بش اور صدر اوباما افغانستان سے انخلا کے بارے میں یکسو نہ تھے جبکہ وہ امریکی سی آئی اے، پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رائے کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مرضی کرتے ہیں۔ افغانستان میں امریکا کو مار پڑنے کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے ادارے کبھی ایک صفحے پر نہیں رہے۔ ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا کا ٹارگٹ زلمے خلیل زادکو دے کر تمام اداروں کو ان کا تابع بنا دیا۔
زلمے خلیل زاد افغان امریکی ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام اور اداروں کے مزاج شناس ہیں جبکہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے سیاسی اور سماجی حرکات کو بھی سمجھتے ہیں۔
دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے افغانستان اپنے اگلے الیکشن کے لئے بنیادی مسئلہ بن گیا تو زلمے خلیل زاد نے اسے اپنی سفارتی زندگی کے لئے ایک فیصلہ کن مسئلہ بنا لیا۔ چنانچہ اب کی بار زلمے خلیل زاد ایک نئے روپ میں سامنے آئے۔ وہ طالبان اور پاکستان سمیت تمام فریقوں کو یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ حل کرنے اور خود مفاہمت کرانے میں سنجیدہ ہیں۔ چنانچہ طالبان بھی اُن پر اعتماد کرنے لگے اور پاکستانی حکام بھی۔
اس سے قبل زلمے خلیل زاد پاکستان مخالف سمجھے جاتے تھے لیکن اب کی بار پاکستان کی خاطر انہوں نے پورے عمل سے بھارت کو باہر رکھا جس کی وجہ سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی نے بھی قطر مذاکرات میں ایسا بھرپور تعاون کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی ان کی ستائش کئے بغیر نہ رہ سکے۔
اب کی بار طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور پھر انہیں حل کے قریب لے جانے کے عمل میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ذاتی دلچسپی لی۔ یہ سب چونکہ زلمے خلیل زاد کے علم میں ہے، اس لئے وہ پاکستان کے کردار کا اعتراف کر رہے ہیں۔
ماضی کے برعکس پاکستان کے صدقِ دل سے تعاون کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ ماضی میں کبھی امریکا نے اپنے سارے کارڈز میز پر نہیں رکھے۔ امریکا کی پالیسی کنفیوژن کی شکار رہتی تھی جس کی وجہ سے پاکستان بھی کنفیوزڈ رہتا۔ اب کی بار اپنی افواج کے انخلا اور طالبان کو سسٹم کا حصہ بنانے کی حد تک زلمے خلیل زاد نے کنفیوژن ختم کردی اور جب پاکستان کو یقین ہو گیا کہ امریکا انخلا اور طالبان کے ساتھ مفاہمت میں سنجیدہ ہے تو پھر پاکستان نے بھی یکسوئی اور سنجیدگی دکھائی۔ اب کی بار افغان حکومت بھی آن بورڈ ہے جبکہ چین اور روس جیسے ممالک بھی اس معاہدے کے حق میں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اور طالبان کے معاہدے سے افغانستان میں امن آجائے گا؟ ضروری نہیں۔ کیونکہ امن اس صورت میں آئے گا جبکہ افغانستان کے تمام دھڑے آپس میں کسی ایسے سیاسی انتظام پر متفق ہو جائیں جس کو پڑوسی ممالک اور امریکا سمیت خطے کی طاقتیں بھی اپنے لئے خطرہ نہ سمجھیں۔ جو معاہدہ ہو رہا ہے وہ امن معاہدہ نہیں بلکہ امریکا اور طالبان کے مابین ڈیل ہے جس میں امریکی افواج کے انخلا اور بین الافغان مذاکرات کی بات کی گئی ہے۔
اگر تو بین الافغان مذاکرات کے نتیجے میں افغان دھڑے کسی مفاہمت تک پہنچ جاتے ہیں تو امریکا اور طالبان کا معاہدہ بھی امن معاہدہ کہلائے گا لیکن اگر امریکا نکل جاتا ہے اور افغان خانہ جنگی مزید زور پکڑ جاتی ہے تو اس صورت میں ایسی تباہی آئے گی کہ ہم ماضی کی تباہ کاریوں کو بھول جائیں گے۔
بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں پہلا چیلنج یہ ہوگا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کون کرے۔ صدارتی انتخابات کے کمیشن نے ابھی تک اپنا فیصلہ نہیں سنایا۔ اگر کمیشن پہلے مرحلے میں ڈاکٹر اشرف غنی کو صدر ڈکلیئر کرتا ہے تو اس پر دیگر صدارتی امیدوار کسی صورت اشرف غنی کی حکومت کو تنہا طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے نمائندہ حکومت نہیں مانیں گے۔
اسی طرح سرِدست طالبان اپنی خلافت اور امیرالمومنین کی بحالی پر اصرار کررہے ہیں۔ طالبان کو سیاسی اور جمہوری عمل کا حصہ بننے پر آمادہ کرنا دوسرا مشکل مرحلہ ہوگا۔ اسی طرح طالبان کو سیاسی نظام کا حصہ بنانے کے لئے ضروری ہوگا کہ عبوری حکومت قائم کی جائے لیکن موجودہ افغان آئین میں عبوری حکومت کی گنجائش نہیں۔ اس کے لئے گنجائش نکالنا ایک اور مشکل مرحلہ ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ بین الافغان مذاکرات کے دوران مشکل مراحل کو کیسے سر کیا جائے؟ میرے نزدیک یہ تمام مراحل بھی سر ہو سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ امریکا اسی طرح دلچسپی لے جس طرح کہ وہ طالبان کے ساتھ اپنے قضیے کے تصفیے کے لئے لے رہا تھا۔ اس کے لئے زلمے خلیل زاد کو نہ صرف موجودہ پوزیشن پر برقرار رکھنا ہوگا بلکہ اگلے مراحل کی انہیں اس سے بھی سخت نگرانی کرنا ہوگی۔
سردست افغانستان کے حوالے سے امریکا اور پاکستان کا قریبی رابطہ ہے۔ اسی قریبی تعاون کی وجہ سے امریکا اور طالبان کی ڈیل ممکن ہوئی لیکن بدقسمتی سے پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے تعلقات خراب ہیں۔ اگر پاکستان اور افغانستان کی حکومت کے مابین کشیدگی رہی تو پھر اگلے مرحلے میں کامیابی مشکل ہوگی۔
تاہم اگر پاکستان اور افغانستان میں اسی طرح تعاون ہو جس طرح پہلے مرحلے میں امریکا اور پاکستان کا رہا تو پھر دوسرے مرحلے میں بھی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس لئے امریکا کو چاہیے کہ وہ دوسرے مرحلے کے لئے پہلی فرصت میں افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کو ایک صفحے پر لے آئے۔