بچوں پر تشدد آئین سے متصادم، مارنے کی کوئی اچھی نیت نہیں ہو سکتی، جسٹس اطہر من اللہ

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ سرعام پھانسی دینے سے بھی معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا، مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تعلیمی اداروں میں جسمانی سزاؤں کے خلاف زندگی ٹرسٹ کے صدر شہزاد رائے کی درخواست پر سماعت کی۔

شہزاد رائے نے کہا کہ پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 89 کہتی ہے کہ بچوں کے گارڈین اچھی نیت کے ساتھ اساتذہ کو جسمانی سزاؤں کی اجازت دے سکتے ہیں۔ والدین کو بھی کیسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ بچوں پر تشدد کی اجازت دیں؟

شہزاد رائے کے وکیل نے کہا کہ سزا کے باعث گزشتہ سال 35 ہزار بچوں نے اسکول جانا ہی چھوڑ دیا۔

اس موقع پر وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے بتایا کہ ان کی وزارت شہزاد رائے کی درخواست کی حمایت کرتی ہے۔ وفاقی کابینہ نے بچوں پر تشدد کے خلاف بل کی منظوری دے دی اور اب معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوانا ہے مگر وزارت قانون نے اعتراض کیا کہ بل پارلیمنٹ کو بھجوانا انسانی حقوق نہیں وزارت داخلہ کا کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 89 کو آئین سے متصادم قرار دے تو یہ مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بچوں پر تشدد بنیادی انسانی حقوق اور آئین سے متصادم ہے۔ بچوں کو مارنے کی کوئی اچھی نیت نہیں ہو سکتی۔ اچھے استاد کو کبھی طالب علم کو مارنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

انہوں نے کہا کہ انسانی رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، سرعام پھانسی دینے سے بھی معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا، کابینہ کی منظوری کے بعد بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ سیکرٹری قانون نمائندہ مقرر کریں جو 12 مارچ کو پیش ہو کر عدالت کو بتائیں کہ بل پارلیمنٹ میں کیوں نہیں پیش کیا جا رہا؟

اگرمیرا جسم میری مرضی نہیں ہوگی توکس کی مرضی ہوگی؟ شہزاد رائے

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں جسمانی سزاؤں سے متعلق بل کابینہ نے منظور کرلیا تھا، بل پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے جانے کی بجائے وزرات داخلہ میں پھنس گیا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی معاہدے کے تحت یہ قانون بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

گلوکار شہزاد رائے نے کہا کہ بچےکو کوئی غلط طریقے سے دیکھ اور چھو نہیں سکتا، اگرمیرا جسم میری مرضی نہیں ہوگی توکس کی مرضی ہوگی؟

انہوں نے کہا کہ یہ بات صرف خواتین اور مردوں تک محدود نہیں، عدالت کی طرف سے بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی ہدایت قابل تحسین ہے۔

مزید خبریں :