07 مارچ ، 2020
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2015سے 2019کے دوران پاکستان میں قریباً 5ہزار خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، 5ہزار کے قریب خواتین سے زیادتی کی گئی، 1ہزار خواتین کے ساتھ گھروں میں مار پیٹ کی گئی اور 2سو 72خواتین کے جسم پر تیزاب پھینکا گیا۔
یہ وہ تعداد ہے جو رپورٹ ہو گئی ہے، ظلم کا شکار گمنام خواتین کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے، ان خواتین کے جسموں کے ساتھ جب چیر پھاڑ کی گئی ہو گی تو انہوں نے سوچا ضرور ہو گا کہ ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ ہونی چاہئے لیکن یہ سلوگن نہ تیزاب پھینکنے والوں نے سنا، نہ ریپ کرنے والوں نے سمجھا، نہ گھروں میں مار پیٹ کرنے والے مرد اس راز کو پا سکے۔
ظلم کرنے والوں کا نعرہ یہی رہا کہ اے عورت جسم تو تیرا ہے لیکن اس پر تیری مرضی کیسے چل سکتی ہے؟ اس پر تو ہماری غلیظ نظروں کا حق ہے، اس پر تو ہوس ناک نگاہوں کو حق ہے، اس پر تو مارنے والے کا حق ہے، اس پر تو تیزاب پھینک کر ساری عمر کے لئے نشانِ عبرت بنا دینے والوں کا حق ہے، تو کون ہوتی ہے اپنا حق مانگنے والی؟
8 مارچ کو ہونے والے عورت مارچ کے مطالبات آپ نے پڑھے ہیں؟ ان مطالبات میں نہ تو عورتیں بےحیائی کی اجازت مانگ رہی ہیں، نہ جسم فروشی کا حق طلب کر رہی ہیں، نہ لباس سے آزاد ہونا چاہتی ہیں۔
ان مطالبات کو غور سے پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ یہ بھی نہیں کہہ رہیں کہ ہماری عزت کرو، ان کے تمام مطالبات کا واحد مقصد یہ نظر آتا ہے کہ ہماری بےعزتی کم کرو، ہماری بےحرمتی کم کرو، ہمارے چہروں پر کم تیزاب پھینکو، ہمیں غیرت کے نام پر قتل کم کرو، ہمیں برابری کا حق بےشک مت دو مگر ہم سے زندہ رہنے، کام کاج کرنے اور سانس لینے کا حق مت چھینو۔
آپ کو بھلے ماروی سرمد سے اختلاف ہو، آپ بےشک انکے نظریات سے اتفاق نہ کرتے ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر آپ نے ان سے اختلاف کرنا ہے تو منطقی سطح پر کرنا ہے، دلیل سے بات کرنی ہے، اگر آپ کسی ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر کسی عورت کے جسم میں عیب نکال کر ٹھٹھے لگائیں گے تو آپ انسان نہیں جانور کہلائیں گے۔
مجھے اس بات پر بھی اعتراض نہیں کہ اگر آپ اس ڈرامہ نگار کی سوچ سے اتفاق کرتے ہیں جو عورت کو دو ٹکے کا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے، آپ کو اپنی پسند ناپسند کا حق ہے، بس اسی بات کو سمجھ لیجئے کہ معاشرے میں توازن کے لئے سب کی بات کو احترام دینا ضروری ہے، اس کے بعد یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اپنے لئے کون سا لائحہ عمل چنتے ہیں، کس نظریے پر چلتے ہیں اور یقین مانیے اس سماج کی عورتیں بھی بس اسی بات کا تقاضا کر رہی ہیں کہ ہمیں بھی اپنی سوچ کے مطابق فیصلے کا اختیار ہونا چاہئے، ہمیں بھی انسان سمجھنا چاہئے۔
عورتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا ہم نے اجتماعی طور پر اس حد تک قبول کر لیا ہے کہ ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں ہوتا، آپ اپنے ذہن میں کسی بھی غلیظ سے غلیظ گالی کو تصور میں لائیں تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ ہمارے معاشرے میں دی جانے والی سب گالیوں کا مقصد کسی نہ کسی طرح عورت کی تضحیک کرنا اور تمسخر اڑانا ہے۔
اسی طرح لطیفوں اور کثیفوں کی طرف دھیان کریں تو سب کا منبع کسی نہ کسی طرح عورت ہی ہے، شستہ محفلوں تک میں مذاق بیوی، میک اپ، عورتوں کی شاپنگ اور ساس بہو کے جھگڑے سے آگے نہیں نکلتا، جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم تو اپنی ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں کی بہت عزت کرتے ہیں، ان سے درخواست یہ ہے کہ احترام کے اس رشتے میں بیوی کا رشتہ بھی شامل کر لیں، اس کا بھی احترام کریں ۔
بہت سے لوگوں کو یہ ادراک نہیں ہے کہ اس معاشرے میں سب لوگ ماں، بیٹی اور بہن کا احترام نہیں کرتے، کتنے بدبخت بچے ہیں جو اپنی ماؤں کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہیں، کتنے بہنوں کا ذاتی انا کی خاطر قتل کرنا ثواب سمجھتے ہیں، کتنے اب بھی بیٹیوں کی پیدائش پر بیویوں کو طلاق دیتے ہیں۔
میرے والد کی بنیادی پہچان مزاحیہ شاعر کی ہے لیکن انکی ایک نظم ’’امبڑی‘‘ ہے جس کو مشاعرے میں سناتے آج بھی وہ اشک بار ہو جاتے ہیں اور سامعین بھی دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں۔
پنجابی کی یہ نظم ایک سچا واقعہ ہے، یہ اس زمانے کی بات ہے جب میرے والد ڈیرہ غازی خان میں ایک اسکول میں پڑھاتے تھے، واقعہ بس اتنا ہے کہ ایک طالبعلم نے اپنی ماں کو مار مار مدھانی توڑ دی۔
وہ زخمی ماں اپنے بیٹے کے دوست کے گھر بیٹے کا ناشتہ لے کر پہنچتی ہے، اس وقت اسکو کو نہ اپنے زخموں کی پروا ہوتی ہے نہ ہاتھوں پر پڑے نیل کی فکر ، بوڑھی ماں کی واحد فکر یہ ہوتی ہے کہ میرا بیٹا جس نے آج مجھے مار مار کر زخمی کردیا ہے آج پھر مجھے سے روٹھ کر ناشتہ کئے بغیر چلا گیا۔
اس کو بہت بھوک لگ رہی ہو گی، نظم میں وہ دکھیاری ماں بتاتی ہے کہ اس نے خود اپنے لہو ہاتھوں سے اس بچے کے لئے ناشتہ بنایا ہے، یہ نظم اگر آپ نے پوری سننی ہے تو میرے والد کے یوٹیوب چینل ’کلیاتِ انور مسعود‘ پر سن سکتے ہیں۔
بس یہ کہہ کر بات ختم کرتا ہوں کہ ’میرا جسم۔ میری مرضی‘ اس غمزدہ ماں کا بھی نعرہ ہے، اس مجروح ماں کی بھی درخواست ہے، اس لہولہان ماں کی بھی التماس ہے، اس بےچاری ماں کی بھی پکار ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔