Time 05 مارچ ، 2020
بلاگ

’میری زبان میری مرضی‘

فائل فوٹو: خلیل الرحمٰن قمر

ایک اسلامی ملک میں عورتوں کے حقوق کے نام پر ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسی مہم چلائے جانے سے متعلق خلیل الرحمٰن قمر کی رائے بہت مضبوط ہے اور وہ معاشرے کے ایک بہت بڑے حصے کے خیالات کی ترجمانی بھی کرتے ہیں لیکن گزشتہ روز ایک ٹی وی ٹاک شو میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے وہ ایک خاتون مہمان کے ساتھ الجھ پڑے اور ایسی زبان استعمال کی جو انتہائی غیر مناسب تھی، جس کی وجہ سے اُن کی اصل دلیل ہی دب گئی اور ایک نئے تنازع نے خصوصاً سوشل میڈیا پر جنم لے لیا۔

 ایک طرف بہت سے افراد نے خلیل الرحمٰن قمر کی غلط زبان کے استعمال پر اُس کی شدید مذمت کی تو دوسری طرف کئی لوگوں نے اُن کے حق میں بھی اپنی رائے دینا شروع کر دی۔ 

’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے سلوگن سے گزشتہ چند سالوں سے عورت مارچ کے نام پر جو کچھ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان میں ہوتا رہا، وہ بقول خلیل الرحمٰن قمر کے واقعی گھٹیا، غلیظ بلکہ میری رائے میں اس ملک میں بے راہ روی، فحاشی و عریانیت پھیلانے کے ساتھ ساتھ ہمارے خاندانی نظام اور معاشرتی اقدار کو تار تار کرنے کی مہم تھی لیکن اگر ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ کی مہم غلط اور یہ نعرہ بھی ناجائز ہے تو پھر ’’میری زبان میری مرضی‘‘ کا بھی حق خلیل الرحمٰن قمر سمیت کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔

میری رائے میں کسی فرد کا جسم ہو یا زبان، وہ اُن حدود و قیود کے پابند ہیں جو دین اسلام ہم مسلمانوں کے لیے طے کرتا ہے اور جس کی گارنٹی ہمارا آئین دیتا ہے۔ اگر حقوقِ نسواں اور انسانی حقوق کے نام پر ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے فلسفے کو ایک اسلامی معاشرے میں رواج نہیں دیا جا سکتا تو اسی طرح ’’میری زبان میری مرضی‘‘ اور آزادیٔ رائے کے نام پر ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر ایسی زبان بھی استعمال نہیں کی جا سکتی جو قابلِ اعتراض ہو اور آئین و قانون کے اصولوں کے بھی منافی ہو۔ 

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُس ٹی وی چینلز سے کوئی سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ اپنی ریٹنگ کے لیے اُنہوں نے ٹاک شو کا وہ حصہ کیوں چلایا جسے بنیادی طور پر سنسر ہو جانا چاہیے تھا۔ ایسے معاملات میں میڈیا اپنی ذمہ داری پر بات کیوں نہیں کرتا؟ بہرحال اس تنازع نے عورت مارچ کو خواہ مخواہ اہمیت دی، بالکل اسی طرح جیسے کچھ حلقوں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ وہ عورت مارچ کو روکیں گے۔

گزشتہ سال جو کچھ عورت مارچ کے نام پر ہوا اُس پر تو پاکستان کے لبرل اور سیکولر طبقے کی اکثریت تک نے تھو تھو کیا۔ اگر ماضی کو گواہ رکھا جائے اور جس قسم کے واہیات نعرے گزشتہ سال کے مارچ کے دوران پلے کارڈز پر درج تھے اور مارچ میں لگائے گئے اُن کے تناظر میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے غیر آئینی فعل کو روکا جائے، لیکن اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو کسی فرد یا گروہ کو قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس سے فتنہ اور بدامنی بڑھے گی۔

’’میرا جسم میری مرضی‘‘ والے عورتوں کے حقوق کے نام پر عورت کو بےراہ روی کے رستے پر ڈالنا چاہتے ہیں، خاندانی نظام اور شادی کے بندھن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں جو ان شاء اللہ پاکستان جیسے معاشرے میں ممکن نہیں۔ 

یاد رہے! یہاں میڈیا کو استعمال کرکے کئی سال تک کوشش ہوتی رہی کہ ویلنٹائنز ڈے کو عام کیا جائے، بےشرمی پھیلائی جائے لیکن پاکستانی عوام نے اُس کوشش کو ردّ کر دیا بلکہ الٹا یہاں خواتین میں پردے کا رواج بڑھ گیا۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسا نعرہ اور مہم بھی ہمارے ہاں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، لیکن ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے ہاں باقی معاملات کی طرح عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں جو اسلام اُسے دیتا ہے، بہت بڑی تعداد میں اُن کے ساتھ بدسلوکی ہوتی ہے، اُنہیں ظلم کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اگر ایک طرف ہمیں اس معاشرے میں فحاشی و عریانیت اور بےراہ روی کو روکنا ہے تو ہمیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ہم عورت کو وہ تمام حقوق دیں جو اسلام متعین کرتا ہے، اُن کا احترام کیا جائے۔ اس کے لیے حکومت، معاشرہ، میڈیا بلکہ ریاست کے ہر فرد کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے پڑے گا۔ 

اگر ایک طرف حکومت کو قانون کے تحت یہ لازم کرنا چاہیے کہ عورت کو وراثت میں حق ملے، کوئی خاتون کسی کام سے گھر سے نکلتی ہے یا اُسے نوکری کرنا پڑتی ہے تو اُسے ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ کوئی مرد اُسے پریشان نہ کر سکے تو دوسری طرف معاشرے کی تعلیم و تربیت کا ایسا نظام وضع کیا جائے جس سے پاکستان میں رہنے والوں کی کردار سازی ہو اور ہم ایسا معاشرہ قائم کر سکیں جہاں عورتوں، بچوں، بزرگوں، اقلیتوں سمیت ہر طبقے کو اُس کے حقوق میسر ہوں اور عملی طور پر ہم اپنے اخلاق اور معاملات کے ذریعے اپنے آپ کو مسلمان ثابت کر سکیں۔ مغرب کی نقالی اور این جی اوز کے پریشر میں ہمیں حقوقِ نسواں کے نام پر اُس ایجنڈے سے دور رہنا چاہیے جو اسلامی تعلیمات اور ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔